توحید و شرک اور حقیقت و مجاز کا قرآنی تصوّر
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے
کہ شریعت میں کسی لفظ کا استعمال اور اس کا کسی امر پر اطلاق بطریقِ
حقیقت بھی جائز ہے اور بطریقِ مجاز بھی۔ مگر اس شرط کو ملحوظ رکھنا ہو
گا کہ مجاز کا استعمال وہاں کیا جائے جہاں مجاز کا محل ہو۔ ہم اپنی
روزمرہ کی گفتگو میں بہت سے امور میں حقیقت و مجاز کے الفاظ کا استعمال
کرتے رہتے ہیں۔ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں مثلاً اگر کسی کا بچہ
جاں بہ لب ہو اور ڈاکٹر کے علاج سے اس کی جان بچ گئی تو یہ کہہ دیا جاتا
ہے کہ فلاں ڈاکٹر کے اعجازِ مسیحائی نے میرے بچے کو موت کے منہ میں
جانے سے بچا لیا۔ اس اندازِ گفتگو میں حقیقت اور مجاز دونوں بیان ہوئے
ہیں۔ درحقیقت بچانے والا تو اﷲ تعالیٰ ہے مگر ڈاکٹر شفایابی کا وسیلہ
اور ذریعہ بن گیا۔ اس طرح ایک اور مثال ڈرائیور کی ہے، جس کی گاڑی کے
نیچے آ کر حادثاتی طور پر بچہ کچلا گیا ہو اور باپ کہے کہ اس ڈرائیور نے
میرے بچے کو مار دیا حالانکہ ڈرائیور محض بچے کی حادثاتی موت کا ذمہ دار
ہوتا ہے اور حقیقت میں مارنے والی ذات تو اﷲ تعالیٰ کی ہے۔ ایسے امور
میں حقیقت اور مجاز پر مبنی دونوں الفاظ بولے جاتے ہیں۔ پس دینا، لینا،
مارنا، جِلانا وغیرہ تمام امور میں حقیقت و مجاز کا استعمال ایک معمول
کی بات ہے۔
1۔ حقیقت و مجاز کے لئے بعض الفاظ کا استعمال
2۔ عبادت میں حقیقی اور مجازی کی تقسیم جائز نہیں
اس ضمن میں بعض الفاظ
توسُّل کے پیرائے میں بول دیے جاتے ہیں اور اس سے توکُّل مراد نہیں
ہوتا۔ مثلاً کسی کی نسبت کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’آپ کی نظرِ کرم، نگاہِ
عنایت و توجہ سے میری زندگی کے شب و روز کٹ رہے ہیں‘‘ تو یہ الفاظ مجاز و
توسل کے معنی میں ہیں حقیقت کے معنی میں نہیں۔ اس طرح کے بے شمار
کلمات، اشعار اور جملے بمعنی توسل بیان ہوتے ہیں بمعنی توکل نہیں۔ حتی
کہ اگر کوئی لفظ استعانت اور استغاثہ کے طور پر حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی استعمال ہوگا تو وہ بھی توسُّل کے معنی میں ہو
گا توکُّل کے معنی میں نہیں کیونکہ توکل کا اطلاق مستعانِ حقیقی اور
فاعلِ حقیقی پر ہوتا ہے جو اﷲتعالیٰ کی ذاتِ بابرکات ہے اور اسی کی طرف
سب امور لوٹائے جاتے ہیں۔
سورۃ الفاتحہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ’’(اے اﷲ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘
اس آیتِ کریمہ کے حوالے
سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس فرمانِ الٰہی کی موجودگی میں ہمارے لئے
کسی اور سے مدد لینا جائز نہیں کیونکہ جب ہم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کی
عبادت نہیں کرتے اور حقیقی معین و مددگار اﷲ تعالیٰ کی ذات کو سمجھتے
اور مانتے ہیں تو کسی غیر سے مدد لینے کا کیا جواز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے
کہ صرف عبادت ایک ایسا عمل ہے جس میں حقیقی، مجازی اور استعاراتی تقسیم
نہیں کی جاتی۔ عبادت میں سرے سے حقیقت اور مجاز کا کوئی سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا، اس میں مجاز کا سوال ہی خارج از بحث ہے کیونکہ عبادت یا تو
عبادت ہے یا پھر نہیں ہے۔ جبکہ استغاثہ یعنی مدد میں عبادت سے کوئی
مماثلت نہیں پائی جاتی، اس کو دو درجوں میں تقسیم کیا گیاہے۔
1۔ استغاثۂ حقیقی2۔ استغاثۂ مجازی
(1) نظامِ زندگی باہمی مدد و استعانت کے سہارے چل رہا ہے
اس تقسیم کو بہرحال
ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے اس طبعی اور مادی دنیا
میں زندگی کا انحصار انسانوں کے ایک دوسرے سے باہمی تعامل و تعاون پر
رکھا ہے۔ جہاں ایک دوسرے کی مدد کرنا بھی پڑتی ہے اور مدد لینا بھی پڑتی
ہے۔ ہمارے سامنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوۂ حسنہ
بطور معیار موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی مدد کی،
انہیں کفر و شرک کے اندھیروں سے باہر نکالا اور انسانی زندگی کو اخلاقِ
عالیہ سے سنوارا تاکہ وہ نیکو کار انسان، بھلے اور اچھے مسلمان بن
جائیں۔ گویا یہ اس امر کی تعلیم ہے کہ امتِ مسلمہ کے افراد کو ایک دوسرے
کی مدد کرنا، نصیحت اور خیر خواہی پر مبنی سلوک کرنا عملی طور پر ان کی
مدد و استعانت ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے استاد اپنے شاگردوں کی، والدین
اپنے بچوں کی، بزرگ نوجوانوں کی اور بھائی بہنوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس
اعتبار سے ضروری ہے کہ طاقتور کمزور کی مدد کرے، حاکم رعایا کی اور
ہمسایہ پڑوسی کی۔ جب تمام دینی اور دنیاوی نظام اس باہمی مدد و استعانت کے
سہارے پر چل رہے ہیں تو کس منطق سے اسے شرک تصور کیا جائے؟ اگر ایسا ہو
تو پھر یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے اور عقیدۂ توحید محض مذاق بن کر
رہ جائے۔
(2) ملائکہ کو بھی نیابت کے امور سونپے گئے ہیں
فی الحقیقت یہ تمام
کائنات ایک دوسرے کی مدد و استعانت کی زنجیر میں بندھی ہوئی ہے انسان تو
انسان، ملائکہ کو بھی نیابت کے امور سونپے جاتے ہیں جنہیں قرآن نے
مُدَبِّراتُ الْاَمْر سے موسوم کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
:فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا’’پھر ان (فرشتوں) کی قسم جو مختلف امور کی
تدبیر کرتے ہیں۔‘‘النازعات، 79 : 5
3۔ حقیقت و مجاز کے اطلاق کی ممکنہ صورتیں
یہ سب ایک نظام کے تحت
ہے جس کے مطابق باہمی مدد و استعانت جائز ہے۔ اس اصول کی روشنی میں
انبیاء اور اولیاء سے استعانت کا جواز خودبخود فراہم ہو جاتا ہے۔
1۔ بعض ایسے امور ہیں جن
میں حقیقت و مجاز کی تقسیم قابلِ عمل نہیں۔ ان مبنی برحقیقت امور میں
کسی امر کے لئے مجاز ثابت کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال
عبادت کی ہم دے چکے ہیں جس میں حقیقی اور مجازی کی تقسیم جائز نہیں۔
2۔ بعض ایسے امور ہیں
جن میں حقیقت و مجاز کی تقسیم ممکن تو ہے مگر تقسیم کی ضرورت اس لئے
نہیں پڑتی کہ جو امور اللہ تعالی کے لئے ثابت ہیں وہ اس کی شان کے لائق
ہیں اور اسی طرح جو امور مخلوق کے لئے ثابت ہیں وہ ان کے حسبِ حال ہیں۔
عملی زندگی میں حقیقت و مجاز کے اطلاق کی ممکنہ صورتیں تین ہو سکتی ہیں :
3۔ بعض امور ایسے ہیں
جن کا اثبات اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ہے اور مخلوق کے لئے بھی مگر جب ان
کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہو گی تو وہ حقیقی معنی میں ہوں گے اور جب مخلوق
کے لئے ہوں گے تو وہ مجازی معنی میں ہوں گے جیسے انبیاء و اولیاء سے
مدد طلب کرنا وغیرہ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ
بعض لوگ توحید سے متعلق چند آیات سیاق و سباق سے جدا کر کے لے لیتے ہیں
اور ان کا اطلاق ایسے امور پر بھی کر دیتے ہیں جہاں حقیقت و مجاز کی
تقسیم لازم ہے۔ اس سے لامحالہ مغالطہ پیدا ہوتا ہے پس ضروری ہے کہ ہم
حقیقت و مجاز پر مبنی ہر حکم کو اس کی حقیقت اور حیثیت کو مدِ نظر رکھتے
ہوئے دیکھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ یہاں پر قرآن مجید کی آیات سے
حقیقت و مجاز کے استعمال اور اطلاق کے نمونہ کی آیات ملاحظہ کیجئے۔
4۔ حقیقت و مجاز کا اطلاق قرآن حکیم کی روشنی میں
(1) لفظِ ’’خَلق‘‘ کا استعمال اللہ تعالیٰ اور مخلوق دونوں کے لئے
قرآنِ حکیم میں بعض مقامات پر حقیقت و مجاز کا صراحةً استعمال کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ
’’خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔‘‘الاعراف، 7 : 54
دوسرے مقام پر حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے :أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ
الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ.’’میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل
جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں۔‘‘
آل عمران، 3 : 49
پہلی آیتِ کریمہ میں
اللہ رب العزت نے اپنے لئے ’’خَلْق‘‘ اور دوسری آیت میں حضرت عیسٰی علیہ
السلام نے بھی اپنے لئے ’’خَلْق‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ یہاں یہ بات
ملحوظ خاطر رکھنی ضروری ہے کہ لفظِ ’’خَلق‘‘ پہلی جگہ حقیقی معنی میں
اور دوسری جگہ مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
یہ اسلوبِ قرآنی ہے کہ
کبھی فعل کو دن کی طرف، کبھی زمانے کی طرف، کبھی حالات کی طرف اور کبھی
کسی برگزیدہ بندے کی طرف منسوب کر دیتا ہے جیسے اللہ عزوجل کا برگزیدہ
بندہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اگر زندگی، بینائی اور شفا کا وسیلہ بنے تو
ان صفات کو ان کی طرف منسوب کردیا حالانکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی
شان ہے کہ وہی کسی کو زندگی، موت اور شفا دیتا ہے۔ وہی کسی کو ہدایت
دیتا ہے اور کسی کا مقدر گمراہی ٹھہرا دیتا ہے۔ کلام کے اس اسلوب کو
کوئی نادان ہی شرک پر محمول کرے گا۔
(2) لفظِ وَھَّاب کا حقیقی اور مجازی استعمال
حضرت زکریا علیہ
السلام نے حضرت مریم علیہا السلام کی عبادت گاہ کا توسلِ مکانی کرتے
ہوئے اپنے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لئے دعا مانگی، اس دُعا کے
الفاظ یہ ہیں :قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً
إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ’’عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے
پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 38
دعا کے الفاظ میں رَبِّ هَبْ لِيْ مذکور ہے جس سے اللہ رب العزت کی شانِ عطا کا بیان ہو رہا ہے۔
اَلْوَهَابُ اللہ
تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی نام سے اللہ رب
العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی :قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي
مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنتَ
الْوَهَّابُ
’’عرض کیا : اے میرے
پروردگار! مجھے بخش دے، اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی
کو میسّر نہ ہو، بیشک تو ہی بڑا عطا فرمانے والا ہے۔‘‘
ص، 38 : 35
اللہ تعالیٰ کو
’’اِنَّکَ اَنْتَ الْوَهَابُ‘‘ اے رب! ’’بے شک تو ہی وہاب ہے‘‘ کہہ کر
پکارا جائے تو وہ اپنے خزانۂ غیب سے بے نواؤں کو جھولیاں بھر بھر کر
نعمتیں عطا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حقیقی
معنوں میں وہاب ہے مگر اس کے وہاب ہونے کی اس صفت کی مجازاً مخلوق کی طرف
نسبت بھی جائز ہے جب حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت مریم علیہما السلام
کے پاس انسانی شکل و صورت میں آئے تو آپ نے پوچھا تم کون ہو؟ کیوں آئے
ہو؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب میں کہا :
إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّا’’میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔‘‘مريم، 19 : 19
قرآن حکیم نے حضرت
جبرئیل علیہ السلام کا بصورتِ بشری اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مقبول بندی
حضرت مریم علیھا السلام کے پاس آنے کو بیان کیا کہ وہ ان کی خلوت گاہ
میں حاضر ہو کر گویا ہوئے :’’میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔‘‘
صیغۂ واحد متکلم لِاَھَبَ لَکِ کا مفہوم یہ ہے کہ میں ’’آپ کو عطا کروں۔‘‘
حضرت مریم علیہا
السلام کو جبریل امین علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں تمہیں بیٹا دینے
آیا ہوں صرف مجازی معنوں میں ہے کیونکہ حقیقت میں بیٹا دینے والا اﷲ رب
العزت ہے۔ یہاں جبریلِ امین علیہ السلام بیٹا دینے اور خوشخبری سنانے کا
وسیلہ بنے اگرچہ بظاہر انہوں نے یہ عمل اللہ تعالیٰ کی جانب سے مامور
کیے جانے پر اپنی طرف منسوب کیا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کو اپنا
پیغام رساں بنا کر بھیجتا ہے تو اسے اس کام کی ہمت اور طاقت بھی عطا
فرماتا ہے۔
مجازی معنی میں جبرئیل
علیہ السلام بھی اس لئے وہاب ہیں کہ وھاب اسے کہتے ہیں جو کسی کو کچھ
دیتا ہے۔ گو وہاب، اللہ کی صفت ہے اور حقیقت میں وہی ہر نعمت کا دینے
والا ہے لیکن اگر مجازی معنوں میں کسی کو وھاب کہہ دیا جائے تو یہ شرک
نہ ہو گا۔ جبرئیل امین علیہ السلام نے جب اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ اللہ
کا فرستادہ (رسول) بن کر جو کچھ کہا وہ شرک نہ ہوا اس لیے کہ رب کا
نمائندہ بن کر جو کچھ عطا کیا وہ بھی در حقیقت اللہ تعالیٰ کے حکم اور
اذن سے اسی کی عطا ہے۔
(3) لفظِ رب کا حقیقی اور مجازی استعمال
رب اﷲ تعالیٰ کا پہلا صفاتی نام ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی پہلی سورت، سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت میں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔‘‘
الفاتحة، 1 : 1
یہ ذہن نشین رہے کہ لفظِ رب ایک واضح قطعی اور حتمی صفت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو قرآن مجید میں جابجا متعارف کرایا ہے۔
لیکن اسی لفظِ رب کو
حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہِ مصر کے لئے بھی استعمال کیا۔ ان کی اس
گفتگو کو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا :
يَا صَاحِبَيِ
السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا
الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ قُضِيَ
الأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِوَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ
نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ
ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
’’اے میرے قید خانہ کے
دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک (کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ ) اپنے مربی
(یعنی بادشاہ) کو شراب پلایا کرے گا اور رہا دوسرا (جس نے سر پر روٹیاں
دیکھی ہیں) تو وہ پھانسی دیا جائے گا پھر پرندے اس کے سر سے (گوشت نوچ
کر) کھائیں گے، (قطعی) فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے
ہوo اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا جسے ان دونوں میں سے رہائی
پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد
آجائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے
بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجتاً یوسف (علیہ السلام) کئی
سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہےo‘‘
يوسف، 12 : 41 – 42
اس آیتِ مبارکہ کی
تفسیر میں ہے کہ دو افراد حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ قید خانے میں
اسیر تھے اور انہوں نے خواب دیکھ کر اپنا خواب سیدنا یوسف علیہ السلام
کو سنایا اور اس کی تعبیر چاہی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے تعبیرِ خواب
بتا دی ان میں سے ایک کو کہا کہ وہ اپنے رب یعنی بادشاہ کو شراب پلایا
کرے گا اور اسی رہائی پانے والے شخص سے یہ بھی کہا کہ مجھے ایک معینہ
مدت کے لئے قید میں ڈالا گیا تھا جو گزر گئی ہے تم قید سے رہائی پانے کے
بعد اپنے رب یعنی آقا سے جو مجھے بھول گیا ہے میرا ذکر کرنا کہ میں
مدتِ قید پوری کرنے کے بعد بھی جیل میں پڑا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے پیغمبر
سیدنا یوسف علیہ السلام نے مذکورہ قیدی سے بادشاہِ مصر کا ذکر کرتے ہوئے
دو مرتبہ لفظِ رب استعمال کیا حالانکہ یہ علاقائی زبان میں روز مرہ
گفتگو کا لفظ تھا اور رہائی پانے والے قیدیوں میں متداول نہ تھا، وہ اسے
بادشاہ اور آقا وغیرہ کہتے تھے اور حقیقی معنوں میں یہی کہنا چاہئے
تھا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر نے استعاراتی
اور مجازی معنی میں لفظِ ’’رب‘‘ بادشاہ کے لئے استعمال کیا جو اس امر پر
دلالت کرتاہے کہ کسی کو مجازی طور پر رب کہنا بھی شرک نہیں۔
پھر یہ بات بھی قابلِ
توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس لفظ کی ممانعت میں صراحتاً
اور وضاحتاً کچھ نہیں کہا اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت سمجھی کیونکہ اس
علاقے کی روزمرہ زبان میں بادشاہ کے لئے ’’رب‘‘ کا لفظ استعمال کرنا
معمول بن چکا تھا۔ اس قسم کی وضاحت طلب کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن کا
شعار ہی لفظوں کی کھال اتار کر لوگوں کو خواہ مخواہ شرک سے مطعون کرنا
ہے۔
آگے قرآن مجید میں رہائی
پانے والے قیدی کے حوالے سے بیان ہے کہ اسے بھی شیطان نے بادشاہ کے
سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا بھلا دیا۔ اس مقام پر اللہ رب
العزت نے خود بھی بادشاہ کے لئے لفظِ ’’رب‘‘ ارشاد فرمایا ہے جو آیت کے
الفاظ ذِکْرَ رَبِّہ سے واضح ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ حقیقی رب اللہ تعالیٰ
نے عزیزِ مصر یا بادشاہِ مصر جو ایک عام انسان تھا کے لئے اپنی صفت
’’رب‘‘ کا استعمال مجازاً فرمایا تو کسی مربی کو رب کہنا شرک نہیں ہوتا
ورنہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہرگز بادشاہِ مصر کو قرآن میں ’’رب‘‘ کے لفظ سے
نہ پکارتا۔
اسی طرح مجازی معنی میں
والدین اپنی اولاد کے لئے بمنزلہ رب ہیں کہ وہ ان کی پرورش کے ذمے دار
ہیں۔ والدین کے حق میں ایک دعائیہ التجا کی قرآن مجید نے تلقین کی ہے جو
اس طرح ہے :وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
’’اور (اﷲ کے حضور) عرض
کرتے رہو اے میرے رب! ان دونوں (میرے والد اور والدہ) پر رحم فرما جیسا
کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔‘‘ بنی اسرائيل، 17 : 24
اس دعا میں کائنات کے
خالق و مالک پروردگار سے التجا کی جا رہی ہے کہ اے میرے رب تو میرے
والدین کو اپنے رحم اور لطف و کرم سے اس طرح نواز جس طرح وہ صغرِ سنی
میں میرے لئے رب (پرورش کرنے والے) بنے، شیر خوارگی اور طفلی کے ان ایام
میں انہوں نے مجھے پالا پوسا اور اپنی ربوبیت کے دامن میں لے لیا اور
میری ضروریات و حاجات کو پورا کرتے رہے۔ اس آیتِ کریمہ میں رَبَّیٰنِيْ
کے الفاظ قابلِ غور ہے جس کی تلقین خود رب العالمین نے فرمائی ہے۔
لفظِ رب اسی طرح اساتذہ
کے لئے بھی بولا جاتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی روحانی اور اخلاقی پرورش
اور تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ رب ہونے کے یہ معانی مجازی و استعاراتی ہیں۔
مفہوم بدل جانے سے ایسا کہنے میں شرک کا کوئی احتمال اور شائبہ نہیں
رہتا۔
ایک سبق آموز علمی نکتہ
قرآن کی رو سے جیسے
بادشاہ کے لئے رب کا لفظ مجازاً کہہ دینے سے وہ حقیقی رب نہیں بن جاتا۔
اسی طرح سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو غوث الاعظم اور
حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو داتا گنج بخش کہہ دینے سے شرک نہیں
ہوتا کیونکہ غوث اور داتا رب سے بڑے الفاظ نہیں ہیں جو مجازاً بول دیے
جاتے ہیں۔ اس طرح ’’يَا اَکْرَمَ الْخَلْقِ اور يَارَسُوْلَ اﷲِ
اُنْظُرْ حَالَنا ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل اور استغاثہ
کے لئے مجازی معانی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اس سے وہ حقیقی معنی
مراد نہیں لئے جاتے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کیلئے خاص ہیں۔
(4) ایمان میں زیادتی کی نسبت آیاتِ الٰہی کی طرف
ایمان میں زیادتی کا
حقیقی سبب اﷲ رب العزت کی ذات وحدہ لاشریک ہے مگر آیاتِ قرآنی کی طرف
ایمان کی زیادتی کو منسوب کیاگیا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا :
وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
’’اور جب ان پر اس
(اللہ) کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلام محبوب کی لذت انگیز اور
حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال
میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں
تکتے)۔‘‘
الانفال، 8 : 2
یہاں ان آیات کی طرف
ایمان میں زیادتی کی نسبت مجاز عقلی ہے کیونکہ ایمان میں زیادتی کا سبب
درحقیقت خود اللہ عزوجل کی ذات ہے۔ آیتیں محض ایمان بڑھانے کا ذریعہ اور
سبب بنتی ہیں۔
5۔ حقیقتاً ھادِی اور مُضِل ذاتِ باری تعالیٰ ہے
قرآن مجید نے انتہائی بلیغ انداز سے ایک اہم بات سورۃ البقرۃ کی آیت میں صراحت سے بیان کر دی ہے۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللَّهَ لاَ
يَسْتَحْيِي أَن يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن
رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ
اللَّهُ بِهَـذَا مَثَلاً يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَّيَهْدِي بِهِ
كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ’’بے
شک اﷲ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لئے) کوئی بھی مثال بیان
فرمائے (خواہ) مچھر کی ہو یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بھی بڑھ
کر ہو، تو جو لوگ ایمان لائے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی
طرف سے حق (کی نشاندہی) ہے، اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ (اسے سن کر
یہ) کہتے ہیں کہ ایسی تمثیل سے اﷲ کو کیا سروکار؟ (اس طرح) اﷲ ایک ہی
بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو
ہدایت دیتا ہے، اور اس سے صرف انہی کو گمراہی میں ڈالتا ہے جو (پہلے ہی)
نافرمان ہیں۔‘‘
البقرة، 2 : 26
اللہ کی ذات ہی هَادِی
اور مُضِل ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتاہے گمراہی
میں مبتلا کردیتا ہے۔ یہ بھی اللہ رب العزت کے صفاتی اسماء ہیں۔ ہدایت
سے سرفراز کرنا اور شامتِ اعمال سے گمراہی میں مبتلا کر دینا صفاتِ
الہٰیہ ہیں۔
جس طرح یہ اللہ سبحانہ و
تعالیٰ کی صفات ہیں اس طرح ان کا اطلاق انسانوں پر بھی کیا جا سکتا ہے
جو بعض کو ہدایت سے ہمکنار اور بعض کو ضلالت وگمراہی سے دوچار کر دیتے
ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہادی ہیں، اس بارے میں
ارشادِ ربانی ہے : وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
’’اور بے شک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں۔‘‘الشوریٰ، 42 : 52
کہ مضلین (گمراہ کرنے والوں) کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا
’’اور واقعی انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا، سو (اے میرے رب!) تو (بھی ان) ظالموں کو سوائے گمراہی کے (کسی اور چیز میں) نہ بڑھا۔‘‘
نوح، 71 : 24
جب سورۂ نوح کی اس آیت
میں کہا گیا ہے کہ ان لوگوں نے بہت ساروں کو گمراہ کیا ہے۔ حقیقت میں
دیکھا جائے تو گمراہ تو وہ خود ہورہے ہیں دوسروں کو کیا گمراہ کریں گے۔
اس آیت سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ ہدایت دینے کی طرح گمراہ کرنا بھی اﷲ
تعالیٰ کی صفت ہے جسے ان گمراہوں سے اس لئے منسوب کیا گیا کہ وہ گمراہی
کا وسیلہ اور ذریعہ بن رہے ہیں اس لئے یہ لفظ مجازاً ان کے لئے استعمال
ہوا ہے۔
آگے اسی سورۂ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی اللہ کے حضور التجا کا ذکر ہے :
إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا
’’بیشک اگر تو اُنہیں
(زندہ) چھوڑے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے، اور وہ بدکار
(اور) سخت کافر اولاد کے سوا کسی کو جنم نہیں دیں گے۔‘‘
نوح،1 7 : 27
حضرت نوح علیہ السلام
عرض گزار ہیں کہ اے رب کریم! اگر ان کو ڈھیل دی گئی تو یہ راہ راست پر
نہیں آئیں گے اور اپنی اولاد کو ورثہ میں گمراہی کے سوا کچھ نہیں دیں
گے۔ یعنی اس آیت کریمہ میں بھی ان گمراہوں کو مضل کہا حالانکہ گمراہ تو
حقیقتاً اللہ تعالیٰ ٹھہراتا ہے مگر چونکہ وہ گمراہی کا سبب بنتے ہیں اس
لئے اِضلال کی نسبت ان کی طرف کی گئی۔
6۔ فعل ’’يَجْعَلُ‘‘ کی نسبت یومِ حساب کی طرف
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :فَکَيْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبًاo(1)’’اگر تم کفر کرتے رہو تو اُس دن (کے عذاب) سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔‘‘
المزمل، 73 : 17
یومِ حساب کی
ہولناکیوں کے حوالے سے قرآن مجید نے بیان کیا کہ وہ دن بچوں کو بوڑھا کر
دے گا۔ یہاں دن کو بوڑھا کر دینے کا سبب قرار دیا گیا ہے حالانکہ قیامت
کی ہولناکیاں، حساب و کتاب، غم و اندوہ اور خوف انسان کو بوڑھا کر دینے
کا سبب بنیں گے جو مُسبَّب ہیں اور ان کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ
ہے۔ اس آیت میں مسبِّب کی بجائے سبب کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے اسلوبِ
بیان سے پتا چلا کہ استعاراتی اور مجازی معنی میں کسی چیز کو بیان کرنا
جائز ہے اور مسبب کی بجائے سبب کی طرف کسی چیز کو منسوب کرنا شرک نہیں
ہوتا۔
7۔ عام معاشرتی زندگی میں حقیقت و مجاز کا استعمال
ہماری روزمرہ زندگی کا
مشاہدہ ہے کہ بعض لوگ اپنے اختیارات کسی دوسرے شخص کو سونپ دیتے ہیں جس
کو بروئے کار لا کر مختلف لوگوں سے کام کرائے جاتے ہیں مثلاً ٹھیکیدار
کسی سڑک اور عمارت کا کام مزدوروں سے کرواتا ہے تو محاورةً بول دیا جاتا
ہے کہ فلاں نے یہ عمارت بنائی اور فلاں کام سرانجام دیا حالانکہ
درحقیقت کرنے والے کوئی اور لوگ ہوتے ہیں۔ اس روزمرہ کے معمول کے محاورہ
کو قرآن نے بھی استعمال کیا ہے جیسے فرعون نے ہامان کو یہ حکم دیا :يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا.
’’اے ہامان! تو میرے لئے ایک اونچا محل بنا دے۔‘‘المؤمن، 40 : 36
اس میں ہامان کی طرف
عمارت بنانے کی نسبت مجازِ عقلی ہے کیونکہ وہ سبب اور حکم دینے والا ہے
خود بنانے والا نہیں۔ حقیقت میں بنانے والے تو اس کے عُمّال اور مزدور
ہیں۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، حقیقی
و مجازی کے فرق سے آشنا شخص ان کو بہ خوبی جانتا ہے۔
صحیح عقیدہ یہی ہے کہ
بندوں کا اور ان کے افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ ہر فعل اور ہر امر
میں نتیجہ خیزی کی باعث اللہ ہی کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی
بھی خواہ اس کا شمار زندوں میں ہو یا فوت شدہ لوگوں میں، کسی چیز میں
دخیل و کفیل نہیں۔ یہی عقیدہ خالص توحید ہے اور اس کے علاوہ اگر کوئی
اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ شرک میں مبتلا ہے۔
8۔ افعال و اعمال میں نسبتِ مجازی و حقیقی کا لحاظ
بہت سے گمراہ فرقے
قرآن کے ظاہری لفظ سے دھوکہ کھا گئے اور انہوں نے قرآن میں بیان کردہ
مجازی و حقیقی قرائن کے فرق کو مدّنظر نہ رکھا اور آیاتِ قرآنی کے ظاہری
تعارض کو تطبیق سے دور کرنے کی کوشش نہ کی مثلاً :
1۔ خلقِ قرآن کا فتنہ
پھیلانے والے اللہ تعالیٰ کے قول <span>إِنَّا جَعَلْنَاهُ
قُرْآنًا عَرَبِيًّا (الزخرف، 43 : 3) ’’بے شک ہم نے اسے عربی (زبان کا)
قرآن بنایا ہے۔‘‘ کے ظاہری الفاظ سے ٹھوکر کھا گئے اور گمراہ ہو کر
خلقِ قرآن کا عقیدہ گھڑ لیا۔
2۔ فرقہ قدریہ اللہ
تعالیٰ کے قول وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ
أَيْدِيكُمْ (الشوریٰ، 42 : 30) ’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو
اس (بداعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی
ہے۔‘‘ اور فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (المائدۃ، 5 :
105) ’’پھر وہ تمہیں ان (کاموں) سے خبر فرما دے گا جو تم کرتے رہے تھے‘‘
کے ظاہری الفاظ سے دھوکہ کھا گئے۔
3۔ فرقہ جبریہ والوں نے
اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ
(الصافات، 37 : 96) ’’حالانکہ اﷲ نے تمہیں اور تمہارے (سارے) کاموں کو
خلق فرمایا‘‘ اور وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى
(الانفال، 8 : 17) ’’اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے)
مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اﷲ نے مارے تھے‘‘ کے
ظاہری الفاظ سے غلط نتیجہ اخذ کیا اور راہِ راست سے بھٹک گئے۔
ان غلط فہمیوں کا ازالہ
کرنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ تمام امت کا سوائے فرقہ قدریہ کے اس عقیدے
پر اجماع ہے کہ بندوں کے افعال و اعمال اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ایک طرف ارشاد ہے وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا
تَعْمَلُونَ اور دوسری طرف ارشادِ ربانی ہے وَمَا رَمَيْتَ إِذْ
رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى ان اقوالِ ربّانی کے مقاصد کے پیشِ نظر
یہ جائز ہے کہ کسی فعل کی نسبتِ اکتساب بندہ کی طرف کر دی جائے جیسا کہ
ارشاد ربانی ہے لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ
(البقرۃ، 2 : 286) ’’اس (جان) نے جو نیکی کمائی اس کے لئے اس کا اجر ہے
اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے‘‘ نیز بِمَا كَسَبَتْ
أَيْدِيكُمْ کے علاوہ اور آیات میں بھی کسب کی اضافت بندہ کی طرف
صراحتاً کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا صاحبِ قدرت ہونا اس عالم کے وجود میں
آنے سے پہلے سے ثابت ہے۔ کسی کے فعل کے کسب پر قادر ہونے کا یہ مطلب نہیں
کہ وہ اس کا خالق بھی ہے، صحیح عقیدہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بالذات
قدرت اور بندے کو حاصل شدہ قدرت میں حقیقت و مجاز کا فرق ہے کیونکہ بندے
کی قدرت کو وجود میں لانے والا اﷲ تبارک و تعالیٰ ہی ہے۔
9۔ بندوں کی طرف منسوب اکتسابِ افعال کی نسبت
مذکورہ بالا بحث سے یہ
ثابت ہوا کہ کسی کام پر قادر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کام وجود میں
بھی آ جائے۔ بندوں کی طرف کسی فعل کی نسبت بطورِ کسب کے ہوتی ہے جس کی
بنا پر بندے اس فعل کی قدرت رکھتے ہیں نہ کہ وہ اس فعل کو عدم سے وجود
میں لانے پر قادر ہیں۔ حقیقت میں افعال کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے،
اسی کے قبضہ میں بندوں اور ان کے افعال کی تقدیر ہے۔ وہی اپنے بندوں کو
ان کے کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ اس کے لئے کوئی چیز وجود میں لانا مشکل
نہیں۔ جس چیز سے اللہ تعالیٰ منع فرما دے تو اس کی مشیت کے برعکس کون ہے
جو اسے وجود میں لاسکے؟ حکم تو ارادے کا مغائیر ہے مثلاً اﷲ تعالیٰ نے
تمام انسانوں کو ایمان لانے کا حکم دیا لیکن اس کی یہ مشیت بھی ہے کہ سب
مؤمن نہ ہوں جیسا کہ قرآن میں فرما دیا :
وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ
’’اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اگرچہ آپ (کتنی ہی) خواہش کریں۔‘‘
يوسف،12 : 103
پس بندوں کی طرف ان کے
اکتسابِ افعال کی نسبت کرنا ایسے ہی ہے جیسے مسبب کی نسبت واسطہ یا سبب
کی طرف کردی جائے اور اس میں کچھ تضاد نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اسباب
پیدا کرنے والا یعنی مسبب الاسباب ہے، وہی واسطہ کو پیدا کرنے والا ہے
اور اسی نے واسطہ میں وساطت کی صلاحیت رکھی ہے۔ اگر اللہ عزوجل وساطت کی
صلاحیت نہ رکھتا تو وہ واسطہ کیسے بن سکتا تھا؟ اس وساطت کا تعلق چاہے
غیر ذوی العقول یعنی غیر ذی شعور اشیاء سے ہو جیسے جمادات، افلاک، باد و
باراں اور آگ وغیرہ یا اہلِ عقول سے ہو جیسے فرشتے، انسان و جن لیکن
ہوتا وہی ہے جو اس کی مشیت میں ہو۔
10۔ لفظاً و معناً مفعول کی جدا جدا نسبت
اگر کوئی یہ اعتراض
کرے کہ ایک ہی فعل کی نسبت دو فاعلوں کی طرف کرنا عقل و منطق کے خلاف ہے
کیونکہ اس سے ایک ہی اثر پر دو مؤثر عاملوں کا اجتماع لازم آتا ہے جو
محال ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض اس وقت صحیح ہو گا جبکہ
دونوں فاعلوں کی فاعلیت متحد ہو لیکن جب دونوں کی فاعلیت ایک نہ ہو تو
اس صورت میں مفعول کی مفعولیت معناً دونوں کے درمیان علیحدہ علیحدہ ہو گی
اور اس صورت میں فعل کی نسبت، دونوں کی طرف ممتنع نہ ہو گی جیسا کہ
اسماء مشترکۃ المعنی کا فرق حقیقت و مجاز کے استعمال سے ظاہر ہے مثلاً
کہا جاتا ہے قتل الامیر فلاناً اور قتل السّیّاف ’’اس کو امیر نے قتل
کیا اور اس کو جلاد نے قتل کیا‘‘ اس طرح جلاد کو بھی ایک اعتبار سے قاتل
کہا جا سکتا ہے اور دوسرے اعتبار سے امیر کو بھی قاتل کہا جا سکتا ہے
کیونکہ قتل کا تعلق دونوں سے ہے اگرچہ ایک ہی فعل کا عمل دو مختلف
اعتبار سے ہے لیکن دونوں کو فاعل کہنا صحیح ہے۔
11۔ اﷲ اور مخلوق سے منسوب امورِ مشترکہ
یہی حال کسی ایک مقدور
کے دو قدرتوں سے متعلق ہونے کا بھی ہے۔ اس کے جواز و وقوع کی دلیل وہ
امور ہیں جن کی نسبت خود اللہ تعالیٰ نے کبھی ملائکہ کی طرف، کبھی بندں
کی طرف اور کبھی اپنی ذات کی طرف کی ہے۔ اس کی چند مثالیں بطورِ نمونہ
ملاحظہ کیجئے۔
سورۃ الزمر میں ارشاد فرمایا :اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا.’’اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے۔‘‘الزمر، 39 : 42
یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ روحوں کو قبض کرتا ہے اس لئے یہاں اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیا ہے جبکہ سورۃ السجدۃ میں فرمایا:
قُلْ يَتَوَفَّاكُم
مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ
تُرْجَعُونَ’’آپ فرما دیں کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے
تمہاری روح قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘السجدة، 32 : 11
اس آیتِ مبارکہ میں
جانیں قبض کرنے کی نسبت ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السلام کی طرف کی
گئی جو جانیں قبض کرنے پر مامور ہے۔ ایک ہی بات تھی۔ ایک جگہ فاعل مذکور
ہے اور دوسری جگہ وہ حذف ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب جانیں عزرائیل
قبض کرتا ہے تو اَﷲُ يَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ کا کیا مطلب ہے؟ اس کی
وضاحت یوں ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ یہاں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ
جانیں قبض کرنا حقیقتاً تو میرے قبضۂ قدرت میں ہے لیکن اس کے لئے میں نے
اپنے فرشتے عزرائیل کو مامور کیا ہے لہٰذا ان سب باتوں کو شرک ہونے سے
مجاز نے بچا لیا اور شرک کا امکان ہی باقی نہ رہا جو لوگ وسیلہ کو نہیں
مانتے انہیں عالم نزع میں عزرائیل کو کہنا چاہیے کہ میں تو وسیلہ اور
ذریعہ کو نہیں مانتا تم چلے جاؤ اللہ تعالیٰ خود آئے اور میری جان قبض
کرے۔ ایسا نکتہ نظر رکھنا سوائے جہالت اور لا علمی کے کچھ نہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ملک الموت کا دلچسپ واقعہ
بعض متشدد نقطہ نظر
رکھنے والے لوگوں کو مندرجہ ذیل واقعہ پر خود غور و فکر کر کے فیصلہ
کرنا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ صحيح البخاري (کتاب الجنائز،
باب من أحب الدفن في الأرض المقدسة أو نحوها، 1 : 449، رقم : 1274) اور
صحيح مسلم (کتاب الفضائل، باب من فضائل موسي، 4 : 1842، رقم :
2372)</span> کی متفق علیہ روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے
بارے میں منقول ہے کہ ان کے پاس ملک الموت انسانی شکل میں روح قبض کرنے
آئے تو آپ علیہ السلام نے کسی سبب سے ملک الموت کو ایک طمانچہ مارا اور
اس کی آنکھ نکال دی۔ ملک الموت انسانی شکل میں تھے اس لیے ان کی آنکھ نکل
گئی کیونکہ قاعدہ ہے کہ جس ہیئت میں کوئی ہوتا ہے اس پر اسی ہیئت کے
احوال وارد ہوتے ہیں۔
وہ اللہ کی بارگاہ میں
حاضر ہوگئے اور عرض کیا : اَرْسَلْتَنِيْ اِلَی عَبْدٍ لَا يُرِيْدُ
الْمَوتَ ’’باری تعالیٰ آپ نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیج دیا جو مرنا
ہی نہیں چاہتا۔‘‘ اس نے میری آنکھ پھوڑ دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
دوبارہ جاؤ لیکن یہ نہ کہنا کہ میں آپ کی جان قبض کرنے آیا ہوں کیونکہ
بارگاہِ انبیاء کے آداب ہوتے ہیں۔ میرے برگزیدہ نبی موسیٰ سے پہلے اجازت
طلب کرنا اور پھر ان کی روح قبض کرنا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام
نے ملک الموت حضرت عزرائیل کو یہ ادب کیوں سکھایا وہ موسیٰ علیہ السلام
کے زمانے تک 70 ہزار انبیاء کی روحیں قبض کر چکے تھے پہلے بھی بڑے
جلالی نبی آئے لیکن کسی نے تھپڑ نہیں مارا تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
ایسا کیوں کیا؟ اس لئے کہ انہیں خبر تھی کہ آخر میں حضرت محمد مصطفیٰ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء علیہ السلام آنے والے ہیں جن کی
شان اور عظمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ جب ان کے وصال مبارک کا
وقت آ جائے تو عزرائیل (علیہ السلام) کو بارگاہِ نبوی ( صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم )کے آداب معلوم ہوں۔
درجِ بالا حدیثِ مبارکہ
میں حضرت عزرائیل علیہ السلام کے یہ الفاظ قابل توجہ ہیں ’’لا یرید
الموت‘‘ (وہ بندہ مرنا ہی نہیں چاہتا) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مرنا نہ
مرنا اس بندۂ مرتضیٰ کے اختیار میں ہے یعنی زندگی یا موت کا اختیار بندے
کو سونپ دیا گیا۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لَا يَمُوْتُ نَبِيٌّ حَتَّی يُخَيَرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.
’’ہر نبی کو اس کے وصال
سے پہلے یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو اپنی مرضی سے واصلِ بہ حق
ہوجائے اور اگر چاہے تو مزید دنیا میں قیام کرے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب
المغازي، باب مرض النبي صلي الله عليه وآله وسلم ووفاته، 4 : 1612، رقم
: 41712. مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضل عائشة، 4 : 1893،
رقم : 2444
ایک روایت میں ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے بھی یہ اختیار
دیا گیا لیکن میں نے اپنے رب سے ملاقات کرنے کو اختیار کیا ہے۔
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 488، 489
امورِ مشترکہ کی چند مزید مثالیں
2۔ سورۃ الانبیاء میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے روح پھونکنے کے عمل کو اپنی طرف منسوب کر کے ارشاد فرمایا :
فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا.’’پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘الانبياء، 21 : 91
حالانکہ روح پھونکنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام مامور تھے اور وہ اس فعل کے فاعلِ حقیقی نہیں تھے۔
3۔ سورۃ القیامۃ میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے وحی سنانے کو اپنی طرف منسوب کر کے فرمایا :
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ
’’پھر جب ہم اسے (زبانِ جبرئیل سے) پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں۔‘‘
القيٰمة، 75 : 18
حالانکہ پڑھنے والے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے جن کی قرات کے سامع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔
4۔ جنگِ بدر میں
مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کا آمنا سامنا ہوا۔ کئی کفار مسلمانوں کے
ہاتھوں قتل ہو کر واصلِ جہنم ہوئے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کے قتل کرنے کے عمل
کی نسبت اپنی طرف کی اور ارشاد فرمایا :
فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ
وَلَـكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ
اللّهَ رَمَى.’’(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں
کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان
پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے
مارے تھے۔‘‘
الانفال، 8 : 17
اللہ تعالیٰ نے اس
آیتِ کریمہ میں کفار کے قتل کی نفی کر کے اسے اپنی ذات سے منسوب کیا اور
اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سنگریزے مارنے کی نفی کر کے اس
عمل کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے
حسی طور پر نسبتِ قتال کی نفی فرمائی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے کنکریاں پھینکنے کے عمل کی نفی فرمائی ہے۔ مسلمانوں کے
کفار کو قتل کرنے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنکریاں
پھینکنے کا معنی اور ہے اور اللہ عزوجل کے قتل کرنے اور کنکریاں پھینکنے
کا مفہوم کچھ اور۔ اس کا مقصد حقیقت و مجاز کا فرق واضح کرنا اور خلق و
تقدیر کا اثبات ہے جس کا مفہوم دو مختلف طریقوں میں بیان کیا گیا۔
12۔ ایک فعل کی بیک وقت خالق اور مخلوق دونوں کی طرف نسبت
قرآن میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں بیک وقت ایک فعل خالق اور مخلوق دونوں کی طرف منسوب ہوا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَلَوْ أَنَّهُمْ
رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ
سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ
رَاغِبُونَ’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان
کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا
اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور رسول
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف
راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا واسطہ اور وسیلہ ہے،
اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے اگریہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ
کرتے تو یہ بہتر ہوتا)۔‘‘
التوبة، 9 : 59
اس آیت میں عطا کرنے کا عمل اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کی طرف منسوب ہے۔
ایک حدیثِ مبارکہ میں
اسی مضمون کی وضاحت اس طرح بیان ہوئی ہے جسے حضرت حذیفہ بن اسید رضی
اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا :
يَدْخُلُ الْمَلَکُ
عَلَی النُّطْفَةِ بَعْدَ مَا تَسْتَقِرُّ فِی الرَّحِمِ بِأَرْبَعِيْنَ
أَوْ خَمْسَةٍ وَ أَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً. فَيَقُوْلُ : يَا رَبِّ
أَشَقِیٌّ أَوْ سَعِيْدٌ؟ فَيُکْتَبَانِ. فَيَقُوْلُ : أَيْ رَبِّ
أَذَکَرٌ أَوْ اُنْثٰی؟ فَيُکْتَبَانِ. وَيُکْتَبُ عَمَلُه وَأَثَرُه
وَأَجَلُه وَرِزْقُه ثُمَّ تُطْوَي الصُّحُفُ فَلَا يُزَادُ فِيْهَا وَلَا
يُنْقَصُ.
’’جب چالیس یا
پینتالیس راتوں میں نطفہ رحمِ مادر میں ٹھہر جاتا ہے تو فرشتہ رحم مادر
میں داخل ہوکر کہتا ہے : اے رب! یہ شقی ہو گا یا سعید؟ پھر ان میں سے ایک
لکھ دیا جاتا ہے۔ پھر پوچھتا ہے : اے رب! یہ مذکر ہو گا یا مونث؟ پس اس
میں سے ایک کو لکھ دیا جاتا ہے، پھر اس کے اعمال، اثر، مدتِ حیات اور
اس کا رزق لکھ دیا جاتا ہے پھر صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں اور ان میں کوئی
زیادتی ہوتی ہے نہ کمی۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب القدر، باب کيفية خلق الآدمي في بطن أمه، 4 : 2037، رقم : 26442. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 116، رقم : 12178
اس حدیثِ مبارکہ میں خیرو شر کی تقدیر کا نکتہ بیان ہوا ہے جس کا صدور بہ یک وقت اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
13۔ مختلف الوجوہ فعل کے استعمال میں کوئی تناقض نہیں
بسا اوقات یہ ہوتا ہے
کہ کسی فعل کا استعمال مختلف وجوہ سے ہوتا ہے اور ان میں کوئی تناقض بھی
نہیں ہوتا، قرآن مجید میں عالَم نباتات کی طرف کسی فعل کو منسوب کر دیا
جاتا ہے۔ جیسے اس آیت میں ارشادِ ربانی ہے :
تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا.
’’(وہ درخت) اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے۔‘‘
ابراهيم، 14 : 25
اب ذرا غور کریں تو وہ
درخت خود کہاں سے پھل لا سکتا ہے اس کے ثمر آور ہونے کا فعل تو
اﷲتعالیٰ نے اس درخت میں فطرتاً پیدا کیا ہے اس مفہوم میں کوئی تعارض
اور تناقض نہیں۔ اسی طرح طبرانی اور ابن حبان کی روایت میں ہے کہ حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو کھجور دیتے ہوئے
فرمایا کہ یہ لے لو۔ اگر یہ تمہاری قسمت میں ہے اور تم خود نہ بھی لو تو
پھر بھی یہ چل کر تمہارے پاس آ جائے گی۔ کھجور کے چل کر آنے کا مطلب کچھ
اور ہے اور آدمی کے چل کر آنے کا مطلب کچھ اور ہے۔ دونوں کی طرف نسبت
مجازی ہے۔ آدمی کے چل کر آنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے میں
قدرت و ارادہ پیدا فرما دے گا اور کھجور کے آنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ کوئی ایسا سبب پیدا فرما دے گا کہ کوئی اور بندہ کھجور کو اس تک
پہنچا دے گا اس طرح حقیقت میں دونوں صورتوں میں اس فعل کی نسبت اللہ
تعالیٰ ہی کی طرف ہے اور ان میں معنوی طور پر کوئی تناقض نہیں۔
14۔ واسطہ کو مؤثرِ حقیقی اور خالق جاننا کفر ہے
اﷲتعالیٰ نے واسطہ کو
پیدا کیا اور اس میں وساطت کی قدرت رکھی ہے لیکن اگر کوئی واسطے کو اصل
اور مؤثر حقیقی سمجھنے لگے تو اس سے کفر لازم آتا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ
نے قارون کو مال و دولت کی فراوانی سے نوازا تو وہ اِترا گیا اورگھمنڈ
کرنے لگا کہ شاید یہ میرا کمال ہے۔ اس نے مال و دولتِ کثیرہ کو اپنی
محنت اور کوشش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا :
قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِندِي.
’’وہ کہنے لگا : (میں
یہ مال معاشرے اور عوام پر کیوں خرچ کروں) مجھے تویہ مال صرف اس (کسبی)
علم و ہنر کی بنا پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے۔‘‘
القصص، 28 : 78
ارون مال و دولت کی
فراوانی سے غرور پر اتر آیا اور یہ سمجھنے لگا کہ یہ مجھے اپنی ذاتی تگ و
دو اور ہنرمندی سے ملا ہے حالانکہ اﷲ رب العزت نے اسے خزانوں کا مالک
بہ طور آزمائش بنایا تھا لیکن وہ مؤثر حقیقی کو بھول گیا، اﷲ رب العزت
کو اس کا غرور وتکبر پسند نہ آیا اور اسے اس کے خزانوں سمیت زمین میں
دھنسا دیا اور وہ اپنے اس کفر کے باعث دنیوی اور اخروی عذاب کا مستحق
ٹھہرا۔
اس مفہوم کی مزید
وضاحت اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتی ہے، حضرت زید بن
خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت رات کی بارش کا
اثر باقی تھا۔ نماز سے فارغ ہو کر حاضرین کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا
:
هَلْ تَدْرُوْنَ
مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوْا : اَﷲُ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ. قَالَ :
قَالَ : أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِيْ مُوْمِنٌ بِيْ وَ کَافِرٌ، فَاَمَّا
مَنْ قَالَ : مُطِرْنَا بِفَضْلِ اﷲِ وَ رَحْمَتِهِ، فَذَلِکَ مُوْمِنٌ
بِيْ کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ. وَ أَمَّا مَنْ قَالَ : مُطِرْنَا بِنَوْءِ
کَذَا وَ کَذَا فَذَلِکَ کَافِرٌ بِيْ مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ.
’’کیا تم جانتے ہو کہ
تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اللہ
تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے
بندوں میں سے بعض کی صبح ایمان پر اور بعض کی صبح کفر پر ہوئی ہے۔ جس
شخص نے کہا ہے کہ ہم پر خدا کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث بارش ہوئی تو
اس نے مجھ پر ایمان رکھا اور ستاروں کا کفر کیا، اور جس نے کہا کہ فلاں
ستاروں کی تاثیر سے بارش ہوئی ہے تو اس نے میرا کفر کیا اور ستاروں
پرایمان رکھا۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، بيان کفر من قال مطرنا بالنوء، 1 : 83، رقم : 71
ق گویا کفر کا باعث یہ زعمِ باطل ہے کہ واسطہ کو مؤثر حقیقی و خالق مانا جائے۔
15۔ واسطہ کے جواز پر سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم
اس حوالے سے ائمہ کا
اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص فعل کو واسطہ کی طرف منسوب کرتا ہے
اور واسطہ کو مؤثر حقیقی نہیں سمجھتا تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی
کیونکہ واسطہ اور ذریعہ کو ملحوظ رکھنے کا خود شریعت نے حکم دیا ہے۔
حضرت ابنِ عمرص سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا :
مَنِ اسْتَعَاذَ بِاﷲِ
فَأَعِيْذُوْهُ، وَمَنْ سَأَلَ بِاﷲِ فَأَعْطُوْهُ، وَمَنْ دَعَاکُمْ
فَأَجِيْبُوْهُ، وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْکُمْ مَعْرُوْفًا فَکَافِئُوْهُ،
فَإِنْ لَمْ تَجِدُوْا مَا تُکَافِئُوْنَهُ فَادْعُوْا لَهُ حَتَّی
تَرَوْا أَنَّکُمْ قَدْ کَافَأْتُمُوْهُ.
’’جو شخص تم سے اﷲ
تعالیٰ کے نام پر پناہ مانگے تو تم اسے پناہ دے دو، جو اﷲتعالیٰ کے نام
پر سوال کرے تو اسے عطا کر دو، جو تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت قبول
کرو، جو تمہارے ساتھ احسان کرے تو اس کا بدلہ احسان کے ساتھ دو، اگر تم
اس کی نیکی کا بدلہ نہ دے سکو تو اس کے لئے دعا کیا کرو یہاں تک کہ تم
اطمینانِ قلب حاصل کرلو کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے۔‘‘
ابوداؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب عطية من سأل باﷲ، 2 : 128، رقم : 1672
کسی کے کام آنا اس کی
مشکل آسان کرنا اس پر احسان کرنا بلاشبہ نیکی ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ
نے فرمایا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ انسان کے انسان پر احسان کا
مؤثر حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ اس احسان کی نسبت موثر مجازی کی طرف کرکے اس
کا بدلہ دینے کی کوشش کرنا مستحسن اسلامی اقدار میں سے ہے۔ حضور محسنِ
انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد کس قدر فطری اصولوں کے
قریب ترین ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ لَمْ يَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْکُرِ اﷲَ.
’’جوشخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔‘‘
1. ترمذی، السنن، کتاب البر، باب فی الشکر، 4 : 339، رقم : 19552. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 323. ابويعلی، المسند، 2 : 365
احسان کا مؤثر مجازی
بندہ ہے اور یہی اس احسان کا واسطہ بن رہا ہے، اس واسطہ احسان کا اس قدر
خیال رکھنا اس احسان کے مؤثر حقیقی (یعنی اللہ تعالیٰ) کی طرف سے ہونے
کے منافی نہیں۔ اگر منافی ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم مذکورہ بالا انسان کا شکر بجالانے کا حکم نہ فرماتے۔
16۔ ترکِ مجاز سے معانیء قرآن میں تطبیق ممکن نہیں رہتی
قرآن حکیم میں اگر ایک
فعل کا استعمال مختلف طریق سے ہوتا ہے تو اس کے مختلف معانی ہوتے ہیں۔
پس اگر ہم صرف حقیقت کو لیں اور مجاز کو ترک کر دیں تو مختلف و متفرق
نصوص میں تطبیق کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ قرآن
حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ قول مجازًا منسوب
کیا :
رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ.
’’اے میرے رب! ان (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر ڈالا ہے۔‘‘
ابراهيم، 14 : 36
کیا اس آیت کے مفہوم
پر غور کرنے سے کوئی مؤمن یہ گمان بھی کر سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے پتھر سے تراشے ہوئے بتوں کو اﷲ تعالیٰ کا شریک بنایا ہو گا۔
العیاذ باﷲ ایسا قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی نفی حضرت ابراہیم
علیہ السلام ہی کے اس قول سے ہو جاتی ہے جس میں قرآن نے انہیں مشرکین سے
مخاطب ہو کر ان (بتوں) معبودانِ باطلہ کے حوالے سے یہ استفسار کرتے
ہوئے بیان کیا :
قَالَ اَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُوْنَo
’’ابراہیم (علیہ السلام) نے (ان سے) کہا : کیا تم ان (ہی بے جان پتھروں) کو پوجتے ہو جنہیں خود تراشتے ہو۔‘‘
ان دو قرآنی ارشادات
کے مفہوم میں کوئی تعارض اور تضاد نہیں۔ بلاشبہ وہ شخص مشرک قرار پائے
گا جو غیر اﷲ کے کسی عمل کی اختراع اور اس میں پائی جانے والی تاثیر کو
اﷲ تعالیٰ کا شریک سمجھے۔ اگر کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کے محبوب و برگزیدہ
بندوں جیسے انبیاء و اولیاء یا عام مخلوقاتِ جن و انس، جمادات اور
مظاہرِ فطرت میں سے کسی کو اﷲ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے تو ایسا عقیدہ
رکھنے والا شخص مشرک ہو گا البتہ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ مسبب میں
سبب کا پیدا کرنے والا اﷲ تعالیٰ ہے اور وہی فاعلِ حقیقی ہے تو اس کا
ایمان شرک سے محفوظ رہے گا خواہ وہ سبب سمجھنے میں خطا ہی کر جائے۔
کیونکہ اس صورت میں اس کی خطا سبب میں ہو گی نہ کہ مسبِّب میں؟ مسبب
الاسباب اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
17۔ معانیء قرآن کی تطبیق میں احتیاط
معانی قرآن کی تطبیق
میں توحید اور شرک کا فرق سمجھنا ضروری ہے صحیح عقیدہ یہ ہے کہ کسی غیر
کو رازق ماننا شرک ہے اسے رزق کا سبب ماننا شرک نہیں۔ محنت کرنے والا
کسان، زمین سے رزق پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے نہ کہ مسبب؟ کسان کو رزق کا
سبب ماننا شرک نہیں۔ اسی طرح لوگ کسی دفتر، فیکٹری یا کارخانہ میں کام
کرتے ہیں اور آجر اور مالک ان سے کام لیتے ہیں۔ والدین اپنی اولاد کی
ولادت کا سبب بنتے ہیں۔ درسگاہوں میں استاد اور معلم علم دینے کا سبب
بنتے ہیں جبکہ مسبِب حقیقی اﷲ تعالیٰ ہی رہتا ہے۔ سب سے بڑا عالم اور ہر
چیز کا مالک اﷲ تعالیٰ ہی ہے۔ ساری عطائیں، عزت اور شان و شوکت اﷲ
تعالیٰ ہی دیتا ہے اور یہ سب کچھ دینے میں وہ خود سبب نہیں بنتا بلکہ
مخلوق میں سے کسی کو رزق، علم اور ولدیت کا سبب بناتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی
شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مسبِّب ہی ہوتا ہے۔ سبب نہیں۔ سبب ہمیشہ مخلوق میں
سے ہوتا ہے۔ اور اسی سبب کو واسطہ و وسیلہ کا نام دیا جاتا ہے نہ کہ
مسبِّب کو، لہٰذا سبب یعنی واسطہ سے توسل ہوتا ہے جبکہ مسبِّب پر توکل
ہوتا ہے۔
کسی کو نفع و نقصان کا سبب ماننا شرک نہیں
کسی اور کو اﷲ تعالیٰ
کے سوا نفع و نقصان کا سبب اور ذریعہ ماننا توحید کی نفی نہیں۔ توحید کی
نفی اور شرک تو تب ہو گا جب کسی اور کو مسبِّب حقیقی مانا جائے۔ کوئی
مسلمان ازروئے عقیدہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو مسبِّب حقیقی نہیں
مانتا حتی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ تک
رسائی کے لئے صرف وسیلہ، ذریعہ اور سبب مانا جاتا ہے اس آخری حد سے اوپر
کوئی نہیں جاتا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ اﷲ رب العزت نے زمین میں کسی
کے رزق کا مالک ہونے کی نفی کی ہے رزق کا وسیلہ، سبب اور ذریعہ بننے کی
نفی نہیں کی۔
اﷲ تعالیٰ جیسے مالکِ
رزق ہے ویسے وہ مالکِ نفع و ضرر بھی ہے۔ قرآن حکیم نے نقصان کا سبب،
باعث، وسیلہ یا ذریعہ ہونے کی نفی نہیں کی۔ وسیلہ کی نفی اس وقت ہو گی
جب اﷲ تعالیٰ کے سوا ان امور کا مالک دوسروں کو مانا جائے اس کی مثال
یوں ہے کہ سانپ نے کاٹ لیا تو سانپ نقصان کا سبب یا باعث بنا، ڈاکٹر کی
دوا سے کسی مرض سے شفایابی ہوئی تو وہ شفا کا سبب بن گیا مگر نہ ڈاکٹر
اور دوائی نفع یا شفا کے مالک ہیں اور نہ سانپ یا زہر نقصان کے مالک ہیں
یہاں سببیت کی نہیں بلکہ مالکیت کی نفی ہے۔توحید و شرک اور صفات و افعال
میں اشتراک
اَسماء و صفات میں اِشتراک کی مثالیںاَفعال میں اِشتراک کی مثالیںخالق اور مخلوق کی مشترکہ صفات
اﷲ رب العزت نے اپنے
حبیبِ مکرم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جملہ خلائق سے
زیادہ مقام و مرتبہ اور فضائل و خصائص عطا فرمائے ہیں۔ انہی صفات و
مناقب حمیدہ کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ تمام
مخلوقات سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ بعض لوگ کج فہمی اور کوتاہ فکری کی بناء پر
مقامِ خالق اور مقام مخلوق کے فرق کو خلط ملط کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف کا بیان آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو (معاذ اﷲ) مقام و مرتبۂ الوہیت تک پہنچا دیتا ہے۔ واضح رہے
کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف از روئے نص
محمود و مطلوب ہے۔ خود اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور شان کا بیان فرمایا ہے لہٰذا ایک امتی
کا فرض ہے کہ وہ بھی اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و
عظمت کو خوب ذوق و شوق سے بیان کرے۔
عقیدۂ صحیحہ یہی ہے کہ
وہ صفات جو ربوبیت کا خاصہ ہیں ان کو چھوڑ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی جتنی تعظیم و توصیف کی جائے وہ نہ کفر ہے نہ شرک بلکہ
طاعت و تقرب ہے۔
فصل اَوّل
اَسماء و صفات میں اِشتراک کی مثالیں
یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ
ذاتِ باری تعالیٰ کی شان اور اس کے مقام کے لائق جو خاص صفات و افعال
ہیں انہیں کسی مخلوق کے لئے ثابت کرنا شرک ہے لیکن بعض اوقات صفاتِ
الٰہیہ اور صفاتِ عبدیہ میں اشتراک ہوتا ہے اس لئے وہ صفات و افعال جو
رب تعالیٰ کا خاصہ نہیں اور باری تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل اور اذن سے
اپنے برگزیدہ بندوں کو عطا فرما کر احسان فرمایا ہے انہیں ایسی صفات و
افعال سے متصف کرنا شرک نہیں۔ قرآن و حدیث میں ایسی بہت سی مثالیں موجود
ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
1۔ اَلشَّفَاعَۃُ
شفاعت کا مالکِ حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے، ارشاد فرمایا :
شفاعت کا مالکِ حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے، ارشاد فرمایا :
قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
’’فرما دیجئے : سب
شفاعت (کا اِذن) اللہ ہی کے اختیار میں ہے (جو اس نے اپنے مقرّبین کے
لئے مخصوص کر رکھا ہے)، آسمانوں اور زمین کی سلطنت بھی اسی کی ہے، پھر
تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
الزمر، 39 : 44
لیکن اﷲ رب العزت نے اپنے اذن سے شفاعت کا اختیار اپنے مقرب بندوں کو عطا کیا ہے، ارشاد فرمایا :
لاَ يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلاَّ مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرحمٰن عَهْدًا
’’ (اس دن) لوگ شفاعت کے مالک نہ ہوں گے سوائے ان کے جنہوں نے (خدائے) رحمٰن سے وعدہءِ (شفاعت) لے لیا ہے۔‘‘عِلمُ الْغَيْبِ
عالم بالذات رب تعالیٰ ہے، ارشادِ ربانی ہے :
قُل لَّا يَعْلَمُ مَن
فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا
يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ…’’فرماد یجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور
زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے (وہ عالم
بالذّات ہے) اور نہ ہی وہ یہ خبر رکھتے ہیں کہ وہ (دوبارہ زندہ کر کے)
کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘
النمل، 27 : 65
لیکن اﷲ تعالیٰ اپنے رسولوں کو علم غیب عطا فرماتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمَا كَانَ اللّهُ
لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن
رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن
تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ’’اور اللہ کی یہ شان
نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے
رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لئے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس
کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو
تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 179
دوسرے مقام پر فرمایا :
عَالِمُ الْغَيْبِ
فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاإِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن
رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ
رَصَدًا
’’ (وہ) غیب کا جاننے
والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی (عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتاo سوائے
اپنے پسندیدہ رسولوں کے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ
خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لئے) نگہبان مقرر
فرما دیتا ہےo‘‘
الجن، 72 : 26 – 27
3۔ اَلْهِدَايَۃُ
ہدایت کا مالکِ حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے، ارشاد فرمایا :
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
’’حقیقت یہ ہے کہ جسے
آپ (ہدایت پر لانا) چاہتے ہیں اسے صاحبِ ہدایت آپ خود نہیں بناتے، بلکہ
(یوں ہوتا ہے کہ) جسے (آپ چاہتے ہیں اسی کو) اللہ چاہتا ہے (اور آپ کے
ذریعے) صاحبِ ہدایت بنا دیتا ہے اور وہ راہِ ہدایت کی پہچان رکھنے والوں
سے خوب واقف ہے (یعنی جو لوگ آپ کی چاہت کی قدر پہچانتے ہیں وہی ہدایت
سے نوازے جاتے ہیں) ۔‘‘القصص، 28 : 56
دوسرے مقام پر اﷲ تعالیٰ نے اپنی ہدایت اور رسول کی ہدایت کو ایک ہی آیت میں ثابت فرمایا :
وَكَذَلِكَ
أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِي مَا
الْكِتَابُ وَلَا الْإِيْمَانُ وَلَكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ
مَنْ نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ
مُّسْتَقِيمٍ
’’سو اسی طرح ہم نے آپ
کی طرف اپنے حکم سے روحِ (قلوب و ارواح) کی وحی فرمائی (جو قرآن ہے)،
اور آپ (وحی سے قبل اپنی ذاتی درایت و فکر سے) نہ یہ جانتے تھے کہ کتاب
کیا ہے اور نہ ایمان (کے شرعی احکام کی تفصیلات کو ہی جانتے تھے جو بعد
میں نازل اور مقرر ہوئیں) مگر ہم نے اسے نور بنا دیا۔ ہم اِس (نور) کے
ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت سے نوازتے ہیں، اور بیشک
آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں۔‘‘
الشوریٰ، 42 : 52۔ اَلضَّلَالَۃُ
1۔ گمراہ ٹھہرانے کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ
بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ مَن يَشَإِ اللّهُ
يُضْلِلْهُ وَمَن يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ…’’اور
جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں، تاریکیوں
میں (بھٹک رہے) ہیں۔ اﷲ جسے چاہتا ہے اسے (انکارِ حق اور ضد کے باعث)
گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے (قبولِ حق کے باعث) سیدھی راہ
پر لگا دیتا ہے۔‘‘الانعام، 6 : 39
2۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
بَلِ اتَّبَعَ
الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ فَمَن يَهْدِي مَنْ
أَضَلَّ اللَّهُ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ’’بلکہ جن لوگوں نے ظلم
کیا ہے وہ بغیر علم (و ہدایت) کے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں،
پس اس شخص کو کون ہدایت دے سکتا ہے جسے اﷲ نے گمراہ ٹھہرا دیا ہو اور
ان لوگوں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہے۔‘‘
الروم، 30 : 29
لیکن ایک مقام پر اﷲ تعالیٰ نے گمراہ کرنے کی نسبت ظالموں کی طرف فرمائی
وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا
’’اور واقعی انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا، سو (اے میرے رب!) تو (بھی ان) ظالموں کو سوائے گمراہی کے (کسی اور چیز میں) نہ بڑھا۔‘‘نوح، 71 : 24
5۔ اَلْعِزَّۃُ
1۔ حقیقی عزت کا سزاوار اﷲ تعالیٰ ہے، فرمایا :
الَّذِينَ
يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ
أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا
’’ (یہ) ایسے لوگ (ہیں)
جو مسلمانوں کی بجائے کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے پاس عزت
تلاش کرتے ہیں؟ پس عزت تو ساری اللہ (تعالیٰ) کے لئے ہے۔‘‘النساء، 4 : 139
2. وَلاَ يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
’’ (اے حبیبِ مکرّم!)
ان کی (عناد و عداوت پر مبنی) گفتگو آپ کو غمگین نہ کرے۔ بیشک ساری عزت و
غلبہ اللہ ہی کے لئے ہے (جو جسے چاہتا ہے دیتا ہے)، وہ خوب سننے والا
جاننے والا ہے۔‘‘يونس، 10 : 65
3. مَن كَانَ يُرِيدُ
الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ
الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ
السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُوْلَئِكَ هُوَ
يَبُورُ’’جو شخص عزت چاہتا ہے تو اﷲ ہی کے لئے ساری عزت ہے، پاکیزہ
کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور وہی نیک عمل (کے مدارج) کو بلند فرماتا
ہے، اور جو لوگ بُری چالوں میں لگے رہتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور
ان کا مکر و فریب نیست و نابود ہو جائے گا۔‘‘فاطر، 35 : 10
اللہ تعالیٰ نے درجِ
ذیل آیتِ کریمہ میں عزت کی نسبت اپنی اور اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی طرف ہی نہیں بلکہ سارے مؤمنین کی طرف کی ہے۔ قرآن حکیم میں
ارشاد فرمایا :
يَقُولُونَ لَئِن
رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا
الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَ
عید میلادالنبی ﷺ کا ثبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہر مسرت ہر خوشی کی جان عیدمیلادالنبی
عید کیا ہے عید کی بھی شان عیدمیلادالنبی
ساعت اعلٰی و اکرم عید میلادالنبی
لمحہء انوار پیہم عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم
عید کیا ہے عید کی بھی شان عیدمیلادالنبی
ساعت اعلٰی و اکرم عید میلادالنبی
لمحہء انوار پیہم عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم
دنیا بھر کے مسلمانوں کے
لئے یہ عظیم خوشی کا دن ہے۔ اسی دن محسن انسانیت، خاتم پیغمبراں، رحمت دو
جہاں، انیس بیکراں، چارہ ساز درد منداں، آقائے کائنات، فخر موجودات،
نبیء اکرم، نور مجسم، سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
خاکدان گیتی پر جلوہ گر ہوئے۔ آپ کی بعثت اتنی عظیم نعمت ہے جس کا مقابلہ
دنیا کی کوئی نعمت اور بڑی سے بڑی حکومت بھی نہیں کر سکتی۔ آپ قاسم نعمت
ہیں، ساری عطائیں آپ کے صدقے میں ملتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے:
انما انا قاسم واللہ یعطی۔ میں بانٹتا ہوں اور اللہ دینا ہے۔ (بخاری و مسلم)
اللہ تعالٰی نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بعثت پر اپنا احسان جتایا۔ ارشاد ہوتا ہے۔
لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولا۔
بےشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ انھیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ (کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن، سورۃ3 آیت164)
بےشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ انھیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ (کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن، سورۃ3 آیت164)
انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی ولادت کا دن سلامتی کا دن ہوتا ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام فرماتے ہیں:
وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا۔ (سورۃ19 آیت33)
دوسری جگہ حضرت یحیٰی علیہ السلام کے لئے باری تعالٰی کا ارشاد ہے:
سلامتی ہے ان پر جس دن پیدا ہوئے۔ (قرآن کریم سورہ19 آیت15)
ہمارے سرکار تو امام
الانبیاء و سیدالمرسلین اور ساری کائنات سے افضل نبی ہیں۔ (صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) پھر آپ کا یوم میلاد کیوں نہ سلامتی اور خوشی کا
دن ہوگا۔ بلکہ پیر کے دن روزہ رکھ کر اپنی ولادت کی خوشی تو خود سرکار دو
جہاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے منائی اور ان کی اتباع،
صحابہءکرام ، تابعین، تبع تابعین، اولیائے کاملین رضوان اللہ علیہم اجمعین
کرتے آئے اور آج تک اہل محبت کرتے آ رہے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے:
نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پیر اور جمعرات کو خیال کرکے روزہ رکھتے تھے۔ (ترمذی شریف)
دوسرے حدیث میں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزے کا سبب پوچھا گیا، فرمایا اسی میں میری
ولادت ہوئی اور اسی میں مجھ پر وحی نازل ہوئی۔ (مسلم شریف)
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت ابولہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ (رضی اللہ
تعالٰی عنہا) نے آکر ابولہب کو ولادت نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم کی خبر دی۔ ابولہب سن کر اتنا خوش ہوا کہ انگلی سے اشارہ کرکے کہنے
لگا، ثوبیہ! جا آج سے تو آزاد ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں پوری سورہ لہب
نازل ہوئی ایسے بدبخت کافر کو میلاد نبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم) کے موقع پر خوشی منانے کا کیا فائدہ حاصل ہوا امام بخاری کی زبانی
سنئیے:
جب ابولہب مرا تو اس کے گھر
والوں (میں حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے اس کو خواب میں بہت برے
حال میں دیکھا۔ پوچھا، کیا گزری ؟ ابولہب نے کہا تم سے علیحدہ ہو کر مجھے
خیر نصیب نہیں ہوئی۔ ہاں مجھے (اس کلمے کی) انگلی سے پانی ملتا ہے جس سے
میرے عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے کیوں کہ میں نے (اس انگلی کے اشارے سے)
ثوبیہ کو آزاد کیا تھا۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث
دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (958ھ متوفی 1052ھ) جو اکبر اور جہانگیر
بادشاہ کے زمانے کے عظیم محقق ہیں، ارشاد فرماتے ہیں:
اس واقعہ میں میلادشریف کرنے والوں کے لئے روشن دلیل ہے جو سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شب ولادت خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابولہب جو کافر تھا، جب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی اور لونڈی کے دودھ پلانے کی وجہ سے اس کو انعام دیا گیا تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں محبت سے بھر پور ہو کر مال خرچ کرتا ہے اور میلاد شریف کرتا ہے۔ (مدارج النبوۃ دوم ص26)
اس واقعہ میں میلادشریف کرنے والوں کے لئے روشن دلیل ہے جو سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شب ولادت خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابولہب جو کافر تھا، جب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی اور لونڈی کے دودھ پلانے کی وجہ سے اس کو انعام دیا گیا تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں محبت سے بھر پور ہو کر مال خرچ کرتا ہے اور میلاد شریف کرتا ہے۔ (مدارج النبوۃ دوم ص26)
نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰی کی طرف سے بہت بڑی رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے۔
وما ارسلناک الا رحمۃ للعلمین۔
اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ (کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن سورۃ21، آیت107)
اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ (کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن سورۃ21، آیت107)
اور رحمت الٰہی پر خوشی منانے کا حکم تو قرآن مقدس نے ہمیں دیا ہے:
قل بفضل اللہ و برحمۃ فبذلک فلیفرحوا۔
تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اسی پر چاہئیے کہ خوشی کریں۔ ( کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن سورۃ10، آیت58 )
تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اسی پر چاہئیے کہ خوشی کریں۔ ( کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن سورۃ10، آیت58 )
لٰہذا میلادالنبی صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جتنی بھی جائز خوشی و مسرت اور جشن
منایا جائے قرآن و حدیث کے منشا کے عین مطابق ہے بدعت سیئہ ہرگز نہیں۔
بلکہ ایسا اچھا اور عمدہ طریقہ ہے جس پر ثواب کا وعدہ ہے۔ حدیث پاک میں
ہے:
من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجر من عمل بھامن بعدہ من غیران ینقص من اجورھم شئی۔
جو اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور ان کا ثواب بھی اسے ملے گا جو اس کے بعد اس نئے طریقے پر عمل کریں گے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی۔ (مسلم شریف)
جو اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور ان کا ثواب بھی اسے ملے گا جو اس کے بعد اس نئے طریقے پر عمل کریں گے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی۔ (مسلم شریف)
نیز اس بات پر سب کااتفاق
ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پیرکے دن ہوئی لیکن تاریخ کے تعین
میں اختلاف ہے شارح بخاری علامہ ابن حجرنے طویل بحث کے بعدکے 12ربیع
الاول ثابت کیاہے (انہوں نے فرمایاکہ کاتب کی غلطی سے 2 کی جگہ 12 ہوگیا
یعنی اثنی شہرربیع الاول کی جگہ اثنی عشرربیع الاول ہوگیا
نیز اس بات پر سب کااتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیرکے دن ہوئی لیکن تاریخ کے تعین میں اختلاف ہے بعضوں نے 12،2،9 لیکن تحقیق سے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 2 ربیع الاول پیرکے دن ہوئی اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری حج 10ذالحجہ بروز جمعہ ہوا اسی کے مطابق معلو ہوتاہے کہ اس کے بعدآنے والے ربیع الاول میں کسی پیر کوآپکو 12ربیع الاول نہیں ملیگا چاہےآپ آنے تین مہینوں تاریخ کاتعین30یا29یا28سے کریں کسی طرح بھی پیرکےآپکو 12ربیع الاول نہیں ملیگا
نیز اس بات پر سب کااتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیرکے دن ہوئی لیکن تاریخ کے تعین میں اختلاف ہے بعضوں نے 12،2،9 لیکن تحقیق سے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 2 ربیع الاول پیرکے دن ہوئی اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری حج 10ذالحجہ بروز جمعہ ہوا اسی کے مطابق معلو ہوتاہے کہ اس کے بعدآنے والے ربیع الاول میں کسی پیر کوآپکو 12ربیع الاول نہیں ملیگا چاہےآپ آنے تین مہینوں تاریخ کاتعین30یا29یا28سے کریں کسی طرح بھی پیرکےآپکو 12ربیع الاول نہیں ملیگا
میثاق مدینہ (کائنات انسانی کا پہلا تحریری دستور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ اپنی غایت اور نصب العین کے حوالے سے
گزشتہ تمام انبیاء و رسل سے ممتاز ہے۔ کیونکہ آپ کو وہ عظیم منصب عطا کر
کے مبعوث کیاگیا جو آپ سے قبل کسی دوسرے نبی کو عطا نہیں کیا گیا اور
جس عظیم منصب کی عطائیگی نے آئندہ کسی نبی کی آمد کی ضرورت و احتیاج کو
بھی کلیتہً ختم کردیا اس منصب کو قرآن حکیم نے یوں بیان فرمایا :۔
هو الذی ارسل رسوله بالهدی و دين الحق ليظهره علی الدين کله
(48 : 28)
(اللہ) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے۔
اظہار علے الدین کلہ کا
یہ عظیم کام اس وقت تک انجام پذیر نہیں ہوسکتا تھا جب تک آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم عرب کے کفر و شرک پر مبنی معاشرے کی بنیادوں تک کو نہ
بدل ڈالتے اور اس معاشرے کو ایک ایسی طرح نو عطانہ کرتے جو الھدی اور
دین حق کی تعلیمات پر مبنی ہوتی۔ یہ امر صرف اخلاقی و مذہبی وعظ و تلقین
سے ممکن نہ تھا۔ بلکہ اس کے لئے تو ایک ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت تھی جو
ہر طبقہ زندگی کے افراد اور ہر سطح زندگی (بشمول انفرادی، قومی اور بین
الاقوامی) پر دین حق کی تعلیمات کے اثر و نفوذ کے فروغ کی حامل ہوتی۔
یہی وہ بنیادی مقصد تھا جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
جدوجہد کو کبھی بھی محدود نہ ہونے دیا۔ دور اول سے جب آپ پر اقراء سے
نزول وحی کا آغاز ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت حق کے فروغ کے
لئے ہر اس اقدام کو اختیار فرمایا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
دعوت فروغ پذیر ہوسکتی تھی اور ہر اس امر کی نفی فرمائی اور اسے مسترد
کر دیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت حق کے آفاقی اور عالمی
تشخص کے متاثر ہونے کا امکان پیدا ہوتا تھا چاہے اس کے لئے آپ کو بے
شمار مشکلات اور مصائب ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ وہ تمام اقدامات جو
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین حق کے اظہار علی الدین کلہ کے لئے
موقع بموقع اختیار فرمائے ان میں سے میثاق مدینہ کو کئی حوالوں سے ایک
مرکزی اور محوری مقام حاصل ہے کیونکہ میثاق مدینہ ہجرت کے نتیجے میں
ظہور پذیر ہوا جو تاریخ اسلام کا ایک اہم اور بے مثال باب ہے۔ میثاق
مدینہ کے ساتھ ہی ایک باقاعدہ اسلامی مملکت وجود میں آگئی جو غلبہ دین حق
کی خشت اول تھی۔ اگر سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد کی نہج کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو
یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ میثاق مدینہ کوئی ایسا عمرانی و سیاسی معاہدہ
نہ تھا جو حادثاتی طور پر معرض وجود میں آگیا ہو بلکہ اس کا اپنا پس
منظر ہے۔ ہجرت سے کئی سال پہلے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
اس نوعیت کے اقدام کی تیاری شروع کردی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر عرب
قبائل اور ان کے سردار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے لئے
یہ شرط پیش کرتے تھے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اسلامی
مملکت اور حکومت کے وارث ہوں گے۔ اسی باقاعدہ پروگرام کے تحت ہجرت مدینہ
کا عمل تکمیل پذیر ہوا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو یہ موقع ملا کہ
انہیں ایک الگ اور آزاد ریاست میسر آئے جس کی سربراہی حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہو اور یہاں وہ نہ صرف اسلام کے احکامات پر
آزادانہ عمل کرسکیں بلکہ اس آزاد مملکت کو اپنا Base Camp بنا کر غلبہ
دین حق کے لئے عملی جدوجہد کا آغاز کرسکیں اور مخالفین کے خلاف سراپا
جدوجہد ہوسکیں۔
اس حقیقت کا اظہار کہ
ہجرت اور میثاق مدینہ تاریخ کے حادثاتی عوامل نہ تھے آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے اس پہلے خطبے سے بھی ہوتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ہجرت کے فوراً بعد مدینہ میں ارشاد فرمایا :
الحمد ﷲ أحمده
واستعينه، وأستغفره واستهديه، وأومن به ولا أکفره، و أعادي من يکفره
وأشهد أن لا إله إلا اﷲ وحد ه لا شريک له، وأن محمداً عبده ورسوله أرسله
بالهدي و دين الحق والنور والموعظةعلي فترة من الرسل، وقلة من العلم،
وضلالة من الناس، وانقطاع من الزمان، ودنو من الساعة، و قرب من الاجل.
من يطع اﷲ ورسوله فقد رشد، ومن يعصهما فقد غوي و فرط وضل ضلالا بعيداً،
وأوصيکم بتقوي اﷲ فانه خير ما أوصي به المسلم المسلم أن يحضه علي
الاخرة. وأن يأمره بتقوي اﷲ. فاحذروا ماحذرکم اﷲ من نفسه، ولا أفضل من
ذلک نصيحة، ولا أفضل من ذلک ذکري. وإنه تقوي لمن عمل به علي وجل ومخافة،
وعون صدق علي ما تبتغون من أمر الاخرة، ومن يصلح الذي بينه و بين اﷲ من
أمر السر والعلانية لا ينوي بذلک إلا وجه اﷲ يکن له ذکرا في عاجل أمره
وذخراً فيما بعد الموت حين يفتقر المرء الي ما قدم، وما کان من سوي ذلک
يود لو ان بينه و بينه أمداً بعيداً، ويحذرکم اﷲ نفسه واﷲ روف بالعباد
والذي صدق قوله وانجز وعده، لا خلف لذلک فانه يقول تعالي (ما يبدل القول
لدي وما أنا بظلام للعبيد) واتقوا اﷲ في عاجل أمرکم وآجله في السر
والعلانية فانه (من يتق اﷲ يکفر عنه سيئاته ويعظم له أجراً) (ومن يتق اﷲ
فقد فاز فوزاً عظيما) وإن تقوي اﷲ توقي مقته، وتوفي عقوبته، وتوفي سخطه.
و إن تقوي اﷲ تبيض الوجه، وترضي الرب، وترفع الدرجة، خذوا بحظکم ولا
تفرطوا في جنب الله قد علمکم اﷲ کتابه، ونهج لکم سبيله ليعلم الذين صدقوا
وليعلم الکاذبين فاحسنوا کأحسن اﷲ اليکم، وعادوا أعداه وجاهدوا في اﷲ حق
جهاده هو اجتبا کم و سما کم المسلمين ليهلک من هلک عن بينة و يحي من حي
عن بينة ولا قوة إلا باﷲ، فاکثروا ذکر اﷲ واعملوا لما بعد الموت فانه
من أصلح ما بينه و بين اﷲ يکفه ما بينه و بين الناس ذلک بأن اﷲ يقضي علي
الناس ولا يقضون عليه، ويملک من الناس ولا يملکون منه، اﷲ أکبر ولا قوة
إلا باﷲ العلي العظيم
(البدايه والنهايه جلد 3، صفحه 213)
تمام تعریفیں صرف خدا
ہی کے لیے ہیں۔ میں اس کی تعریف بیان کرتا ہوں۔ اسی سے مدد کا خواستگار
ہوں، اسی سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کے منکر کا مخالف ہوں۔ میں گواہی
دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔ صرف وہی ایک خدا ہے اس
کا کوئی شریک نہیں ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے خاص
بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، جنہیں خدا نے ہدایت، نور
اور سرتاپا نصیحت بنا کر مبعوث فرمایا۔ جب کہ پیغمبروں کو دنیا میں آئے
ہوئے کافی وقفہ ہوچکا تھا، علم کم ہوچکا تھا، گمراہی عام ہوچکی تھی۔
جہالت پر طویل زمانہ گزرچکا تھا، قیامت اور آخرت کے قرب کا زمانہ آگیا
تھا۔ پس جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت پاگیا اور جس
نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا اور کھلی گمراہی
میں مبتلا ہوگیا۔
میں تمہیں زہد و تقویٰ
اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو اس
سے بہتر نصیحت نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد کا درجہ یہ ہے کہ بھائی ایک دوسرے
کو آخرت کی ترغیب دیں اور اسے تقویٰ کی ہدایت کریں۔ پس خدا نے جس بات
سے تمہیں بچنے کا حکم دیا ہے اس سے بچو۔ اس سے بہتر اور کوئی نصیحت نہیں
ہے اور نہ اس سے افضل اور کوئی ذکر ہے۔ حقیقی تقویٰ اس کا ہے جو دل میں
اپنے رب کا خوف اور اخروی امور کی صداقت کا جذبہ لیے ہوئے اس پر عمل
کرے اور جو شخص اپنے اور اپنے خدا کے درمیان معاملہ کو ظاہر و باطن میں
ٹھیک رکھے اور اس سے صرف اللہ کی خوشنودی کی نیت رکھے تو یہ عمل دنیا میں
اس کے ذکر خیر کا باعث اور موت کے بعد ذخیرہ آخرت ہوگا۔ جس روز انسان
اپنے پچھلے اعمال کا محتاج ہوگا اور اس کے سوا جو کچھ ہوگا اس کے متعلق
وہ خواہش کرے گا کہ کاش اس کے اور اس کے عمل کے درمیان طویل مدت کا فاصلہ
ہوتا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے عذاب سے بھی ڈراتا ہے ساتھ ہی وہ اپنے
بندوں پر بہت مہربان بھی ہے۔ اللہ اپنے قول میں صادق اور اپنے وعدہ کو
پورا کرنے والا ہے، اس کا ارشاد ہے : ’’ما یبدل القول لدی وما انا بظلام
للعبید،،
پس اے لوگو اپنے دنیوی و
اخروی سب امور میں ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرو کیونکہ جو خدا سے ڈرتا
ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کا کفارہ کردیتا ہے اور اس کے اجر میں
اضافہ فرما دیتا ہے جو خدا سے ڈرتا ہے وہ عظیم الشان کامیابی حاصل کرتا
ہے۔ اللہ سے تقویٰ انسان کو خدا کے غضب اور ناراضگی سے محفوظ رکھتا ہے
خدا کا تقویٰ متقیوں کے چہروں کو سفید و منور رکھے گا۔ اور ان سے رب کو
راضی کردے گا۔ ان کے مراتب بلند کر دے گا۔
اے لوگو! اپنا اپنا حصہ
حاصل کرلو اور اللہ کے معاملہ میں زیادتی سے کام نہ لو۔ اللہ تعالی نے
تمہیں اپنی کتاب کی تعلیم دی اور تمہاری نجات کے لیے ایک طریقہ مقرر
فرما دیا تاکہ وہ اس کی تصدیق کرنے والوں اور اس کے جھٹلانے والوں کو جان
لے۔ پس جس طرح خدا نے تم سے بھلائی کی ہے تم بھی بھلائی کرو۔ خدا کے
دشمنوں سے تم بھی عداوت رکھو۔ اس کی راہ میں جہاد کا حق پوری طرح ادا
کرو۔ اس نے تمہیں اسلام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ اور تمہارا نام مسلمان
رکھا ہے تاکہ وہ جسے ہلاک کرے اسے قطعی دلیل کے ساتھ ہلاک کردے اور جسے
زندہ رکھے اسے دلیل کے ساتھ زندہ رکھے۔ خدا کے سوا کائنات میں کوئی اور
طاقت نہیں ہے۔ پس تم لوگ اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو اور آخرت کے لیے
نیک عمل کرتے رہو۔ کیونکہ جس نے اپنے اور خدا کے درمیان کا معاملہ ٹھیک
کرلیا تو خدا اس کے اور لوگوں کے درمیان ہونے والے معاملات کے لیے کافی
ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ لوگوں پر حکم چلاتا ہے لوگ اس پر حکم نہیں چلاتے
اور اللہ ہی لوگوں کے معاملات کا مالک و مختار ہے۔ لوگ اس کے معاملات کے
مختار نہیں۔ اللہ بہت بڑا ہے اور کائنات میں کوئی طاقت سوائے خدائے عظیم
کی طاقت کے نہیں ہے۔
اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ میں ارشاد فرمائے گئے پہلے خطبے کا جائزہ لیں تو مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں :
1۔ اس خطبے میں آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے سامنے اپنا منصب اور مقام بیان فرمایا
کہ انسانیت ایک طویل عرصے تک گمراہی میں مبتلا رہی اور سلسلہ انبیاء
علیہ السلام کو منقطع ہوئے ایک زمانہ گزر گیا تھا۔ لہذا رب ذوالجلال نے
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے نور ہدایت کو عام کرنے کا فیصلہ
فرمایا۔ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اطاعت حق کا
درس دیا۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ کتب سیر کی روایات کے مطابق ہجرت
کے بعد آپ کا یہ پہلا خطبہ ہے مگر اس خطبے کے مندرجات سے ایسا کوئی تاثر
نہیں ابھرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل مدینہ کے درمیان
کوئی بعد، دور ی یا اجنبیت نظر آتی ہو۔ انداز کلام سے ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ آپ عرصہ دراز سے سامعین سے مخاطب رہے ہیں۔مزید یہ کہ ایسا کوئی
تاثر بھی نظر نہیں آتا کہ یہ خطاب ایک ایسی شخصیت کا ہے جو اپنے وطن سے
بے سرو ساماں ہوکر نکل آئی ہو اور ایک نئے دیس میں پناہ و قیام کی
متلاشی ہو۔ بلکہ یہ خطاب ایک رہنما، مقتدیٰ اور حکمرانی ہستی کا محسوس
ہوتا ہے جو متبعین اور followers سے کیا جا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے خطبے کے انداز تکلم اور سامعین کے ماحول سے یہ امر ہویدا
ہوتا ہے کہ آپ کی آمد نہ تو اہل مدینہ کے لئے نئی تھی اور نہ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچ کر کوئی اجنبیت محسوس کر رہے تھے بلکہ سالہا
سال تک اس امر پر کام ہوچکا تھا (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے) جس کا نتیجہ
یہ تھا کہ تحریک اسلام ایک نئے مرحلے کی طرف بتدریج شعوری طور پر بڑھ
رہی تھی۔
2۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اپنے پورے خطبہ میں اہل مکہ، کفار مکہ کے ظلم و ستم، آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف گھناونی سازشوں، مسلمانوں کے مصائب و
آلام اور وہ حالات جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ چھوڑنے پر
مجبور ہوئے تھے کا تذکرہ تک نہ فرمایا۔ نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے راستے کی مشکلات کا تذکرہ کیا کہ کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کفار مکہ کے جاسوسوں اور کارندوں سے بچ کر مدینہ پہنچے۔ بلکہ اس کی
بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں ان عظیم اقدار اور
ابدی و آفاقی اقدار حیات کا ہی تذکرہ فرمایا جن کا فروغ و نشر آپ کا
مقصد حیات تھایہ امر جہاں ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمتہ
للعلمینی، درگزر، عفو و بردباری، شائستگی اور اعلی ظرفی کا ثبوت ہے وہاں
آپ کی سیاسی بصیرت اور حکمت کا آئینہ دار بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اپنے پہلے ہی خطبے میں اپنی آمد اور آنے والے دور کو منفی
بنیادوں پر استوار نہیں فرمانا چاہتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے اپنی آمد کے بعد اپنے مد نی دور کا آغاز ایک مثبت اور تعمیری
رویے سے فرمایا۔ کیونکہ منفی انداز عمل اختیار کرنے سے آپ کے مقاصد ہجرت
پس منظر میں چلے جاتے مگر مثبت انداز عمل کا نتیجہ ایک نئے معاشرے،
ریاست کے قیام کی شکل میں سامنے آیا جس کا لازمی اور منطقی انجام کفر و
طاغوت کی بیخ کنی اور سرکوبی بھی تھا۔
3۔ اس خطبہ میں آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیک وقت دینی اور دنیاوی معاملوں کا تذکرہ
فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :۔
’’میں تمہیں زہد و تقویٰ
اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو اس
سے بہتر نصیحت نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد کا درجہ یہ ہے کہ بھائی ایک
دوسرے کو آخرت کی ترغیب دیں اور تقوی کی ہدایت کریں پس خدا نے جس بات سے
تمہیں بچنے کا حکم دیا اس سے بچو۔ اس سے بہتر اور کوئی نصیحت نہیں ہے
اور نہ اس سے افضل اور کوئی ذکر ہے۔ حقیقی تقویٰ اس کا ہے جو دل میں
اپنے رب کا خوف اور اخروی امور کی صداقت کا جذبہ لئے ہوئے اس پر عمل
کرے۔،،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے ان ارشادات سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامعین
جو شہر مدینہ کے مکینوں پر مشتمل تھے اسلام کی دعوت سے کلی طور پر نا
آشنا نہ تھے۔ بلکہ اپنی آمد سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل
مدینہ کے دین اسلام سے تعارف کے لئے اقدامات فرما دیئے تھے۔ اور مدینہ
میں لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ذہنی و فکری طور پر اس حد تک تیار
ہوچکی تھی کہ وہ دین حق کی تعلیمات کی قدر و قیمت کو کما حقہ Evaluate
کرسکتے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے
ارشاد فرمایا :۔
’’جو شخص اپنے اور اپنے
خدا کے درمیان معاملہ کو ظاہر و باطن میں ٹھیک رکھے اور اس سے صرف اللہ
کی خوشنودی کی نیت رکھے تو یہ عمل دنیا میں اس کے ذکر خیر کا باعث اور
موت کے بعدذخیرہ آخرت کا باعث ہوگا۔،،
اور یہ کہ :۔
’’اے لوگو ! اپنے دنیوی
و اخروی سب امور میں ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرو کیونکہ جو خدا سے
ڈرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی برائیوں کا کفارہ کردیتا ہے اور اس کے اجر
میں اضافہ کردیتا ہے جو خدا سے ڈرتا ہے وہ عظیم الشان کامیابی حاصل کرتا
ہے،،
یعنی آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں دنیا اور آخرت کی کامیابی کی شرط براہ راست
تقوی اور ظاہری و باطنی معاملات میں الوہی رضا جوئی کو قرار دیا۔ جسے
اختیار کرنا اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
سامعین دین اسلام سے ابتدائی واقفیت حاصل نہ کرچکے ہوتے۔
4۔ اس خطبے میں دنیاوی
اور اخروی فلاح کے لئے اصول و ضوابط بیان فرمانے کے ساتھ ساتھ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجمالاً ایک اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کا
نقشہ بھی بیان فرما دیا کہ اہل ایمان کو باہمی معاشرتی برتاؤ کس طرح
کرنا ہوگا اور ایک اسلامی ریاست میں باہمی ربط و اشتراک کی نوعیت اور
اہل کفر و طاغوت کے مقابل ان کے رویے کی نوعیت کیا ہوگی :
’’اے لوگو! اپنا اپنا
حصہ حاصل کرلو۔ اور اللہ کے معاملے میں زیادتی سے کام نہ لو۔ اللہ تعالی
نے تمہیں اپنی کتاب کی تعلیم دی اور تمہاری نجات کے لئے ایک طریقہ مقرر
فرما دیا تاکہ وہ اس کی تصدیق کرنے والوں اور اس کے جھٹلانے والوں کو
جان لے۔ پس جس طرح خدا نے تم سے بھلائی کی ہے تم بھی بھلائی کرو۔ خدا کے
دشمنوں سے تم بھی عداوت رکھو اس کی راہ میں جہاد کا حق پوری طرح ادا
کرو۔ اس نے تمہیں اسلام کے لئے منتخب فرمایا ہے اور تمہارا نام مسلمان
رکھا ہے۔
5۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا یہ خطبہ جہاں مثالی معاشرے کے خصائص اور بنیادی تشکیلی
عناصر کو بیان کرتا ہے۔ وہاں اس معاشرے کے قیام کے حوالے سے آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے کمال یقین و اعتماد کا عکاس بھی ہے۔ ایک نئی سر زمین
میں آ کر انسان جن خطرات اور تحفظات سے خود کو دوچار محسوس کرتا ہے ان
کا شائبہ تک بھی اس خطبے میں نہیں۔ بلکہ رب ذوالجلال کی ذات پر یقین
کامل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ قوت ہے جس کا بل بوتے پر آپ ایک
نئی مسلم ریاست کی بنیاد رکھنے کے لئے کہ نہ صرف خود مصروف کار ہیں بلکہ
دیگر اہل ایمان کو بھی دعوت دیتے ہیں :۔
’’اللہ نے تمہارا نام
مسلمان رکھا ہے تاکہ جسے ہلاک کرے اسے قطعی دلیل کے ساتھ ہلاک کرے اور
جسے زندہ رکھے اسے دلیل کے ساتھ زندہ رکھے۔ خدا کے سوا کائنات میں کوئی
اور طاقت نہیں ہے۔ پس تم اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو اور آخرت کے لئے
نیک عمل کرتے رہو۔ کیونکہ جس نے اپنے اور خدا کے درمیان کا معاملہ ٹھیک
کرلیا تو خدا اس کے اور لوگوں کے درمیان ہونے والے معاملات کے لئے کافی
ہوگا۔ اس لئے کہ اللہ لوگوں پر حکم چلاتا ہے لوگ اس پر حکم نہیں چلاتے
اور اللہ ہی لوگوں کے معاملات کا مالک و مختار ہے لوگ اس کے معاملات کے
مختار نہیں۔ اللہ بہت بڑا ہے اور کائنات میں کوئی طاقت سوائے خدائے عظیم
کی طاقت کے نہیں ہے۔،،
مختلف روایات میں یہ خطبہ قدرے مختلف انداز سے بھی آیا ہے تاہم یہ انہی بنیادی خصوصیات کا عکاس ہے جن کا تجزیہ اوپر پیش کیا گیا :۔
أما بعد أيها الناس
فقدموا لانفسکم تعلمن واﷲ ليصعقن احدکم ثم ليدعن غنمه ليس لها راع، نم
ليقولن له ربه. ليس له ترجمان ولا حاجب يحجبه دونه. ألم يأتک رسولي
فبلغک، وآتيتک مالا وأفضلت عليک، فما قدمت لنفسک فينظر يمينا وشمالا فلا
يري شيئا، ثم ينظر قدامه فلا ير غير جهنم، فمن استطاع أن يقي وجهه من
النار ولو بشق تمرة فليفعل، ومن لم يجد فبکلمة طيبة فان بها تجزي الحسنة
أمثالها إلي سبع مائة ضعف والسلام علي رسول اﷲ ورحمة الله وبرکاته
(البدايه والنهايه جلد 3، صفحه 214)
لوگو! اپنی ذات و حیثیت
پر پہلے غور کرو، اللہ تمہیں بتاتا ہے اور پھر تم سے پوچھتا ہے کہ اگر
تم میں سے کسی پر اس کے حکم سے بجلی گر پڑے تو کیا اس کے بعد اس کے
بکریوں کے گلے کو بلانے والا اور چرواہا کوئی ہوگا؟ اللہ تعالیٰ کے سوا
نہ کوئی تمہارا ترجمان ہے اور نہ کوئی تمہارا پردہ پوش، وہ تم سے یہ بھی
فرماتا ہے کہ کیا اس نے تمہاری ہدایت کے لیے اپنا رسول نہیں بھیجا؟ کیا
اس نے تمہیں مال و دولت نہیں دی؟ کیا اس نے تم پر اپنا فضل نہیں کیا؟
پھر تم اپنے نفس کی پیروی پر کیوں مائل ہو؟ ایسا کروگے تو پھر اگر تم
اپنے دائیں بائیں دیکھوگے تو تمہیں کوئی چیز نظر نہیں آئے گی اور اگر
نیچے نظر ڈالوگے تو آتش جہنم کے سوا کچھ نہ دیکھ سکوگے۔ کاش تم ایک لمحے
کے لیے اس پر غور کر کے اعمال نیک کی طرف آؤ۔تمہارے لیے ایک ہی بہتر
راستہ ہے یعنی کلمہ طیبہ (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) اعمال حسنہ
کا اجر دینے کے لیے دس سے لے کر سات سو بلکہ اس سے بھی زیادہ ضرب در ضرب
بے شمار مثالیں ہیں۔ والسلام علی رسول اللہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔،،
أن الحمد ﷲ أحمده
واستعينه، نعوذ باﷲ من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده اﷲ فلا مضل
له، ومن يضلل فلا هادي له. وأشهد أن لا إله إلا اﷲ (وحده لا شريک له)،
إن أحسن الحديث کتاب اﷲ، قد أفلح من زينه اﷲ في قلبه وأدخله في الاسلام
بعد الکفر و اختاره علي ماسواه من أحاديث الناس، إنه أحسن الحديث
وأبلغه، أحبوا من أحب اﷲ، أحبوا اﷲ من کل قلوبکم (ولا تملوا کلام اﷲ
وذکره ولا تقسي عنه قلوبکم) فانه من يختار اﷲ و يصطفي فقد سماه خيرته من
الاعمال وخيرته من العباد والصالح من الحديث ومن کل ما أوتي الناس من
الحلال والحرام فاعبد وا اﷲ ولا تشرکوا به شيئا واتقوه حق تقاته واصدقوا
اﷲ صالح ما تقولون بأفواهکم وتحابوا بروح اﷲ بينکم إن اﷲ يغضب أن ينکث
عهده والسلام عليکم ورحمة اﷲ و برکاته.
(البدايه والنهاية جلد 3، صفحه 214)
’’الحمدللہ! میں اس کی
حمد کرتا ہوں اور اس سے امداد طلب کرتا ہوں، ہم اپنے نفس کے فتنوں اور
اپنے اعمال کی برائیوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں، اللہ جس کو گمراہ کرے
اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی
معبود نہیں (وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں) سب سے بہتر کلام اللہ
تعالیٰ کی کتاب (قرآن) ہے، اس نے فلاح پائی جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ نے
زینت بخشی اور اسے کفر کے بعد اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی
اور اسے اختیار بخشا کہ وہ ہدایات اسلام کے علاوہ دنیا کے تمام انسانوں
کی باتوں کو رد کردے۔ کلام الہی سب سے زیادہ بہتر کلام ہے، اس کی تبلیغ
کرو، جسے اللہ چاہے اسے تم بھی چاہو، اللہ کو اپنے دل کی تمام گہرائیوں
سے چاہو، اللہ کے کلام اور اس کے ذکر کو نہ الٹ پلٹ کرو نہ اپنے قلوب
میں اس کی کمی آنے دو، جسے اللہ تعالیٰ نے اختیار بخشا اور اس کے قلب کو
مصفا بنایا اس نے (گویا) اس کے اعمال کو بھی نیک بنایا اور اپنے تمام
بندوں میں اسے بھلائی کے لیے چن لیا، بہترین بات یہ ہے کہ کوئی دوسروں
کو حرام و حلال میں فرق کرنا سکھائے۔ اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا
شریک نہ بناؤ، تقوی کو اتنا اختیار کرو جتنا اس کا حق ہے، جو کچھ منہ سے
نکالویعنی جو بات کرو) اس میں اللہ کو حاضر وناظر جان کر صداقت کا سب
سے زیادہ خیال رکھو، آپس میں جو معاہدہ کرو اسے خوشنودی خداوند کے لئے
پورا کرو، کیونکہ جو معاہدات پورے نہیں کرتے ان سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ریاست مدینہ کے قیام کیلئے ابتدائی اقدامات :
حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے دعوت حق کے آغاز میں اپنی دعوت کو ممکنہ حد تک وسعت
پذیر کرنے کیلئے اقدامات فرمانے شروع کردیئے۔ مکہ مکرمہ میں ہونے والی
شاید ہی کوئی ایسی عوامی و سماجی تقریب ہو جس میں گرد و نواح سے آنے
والے لوگوں تک آ پ کی دعوت نہ پہنچی ہو یہی وجہ تھی کہ قریش مکہ باہر سے
آنے والے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بدظن کرنے اور دور
رکھنے کیلئے مصروف کار رہتے ان کی یہ منفی سرگرمیاں بھی ایک لحاظ سے
اسلام ہی کے فروغ اور آپ کے تعارف کا باعث بنتیں۔
سال دس نبوی میں حج کے
زمانے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبائل عرب میں دعوت حق
کیلئے ایک رات نکلے آپ مقام عقبہ سے گزر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو قبیلہ خزرج کے کچھ لوگ ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ان سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواباً کہا کہ ہم قبیلہ خزرج
کے کچھ لوگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا آپ یہود کے
ہمسائے ہیں انہوں نے کہا ہاں۔ ان سے ابتدائی تعارف کے بعد جو دراصل حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ کے حالات پر گہری نظر اور مدنی
قبائل کے بارے میں وسیع معلومات کا عکاس تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے ان کے سامنے دعوت حق کا پیغام رکھا۔ انہیں اسلام کی دعوت دی اور
قرآن پڑھ کر سنایا ان لوگوں میں سے ایک شخصیت کا دل کلام الہی سے بے حد
متاثر ہوا یہ خو ش نصیب حضرت ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے وہ اپنے وفد
کے لوگوں سے کہنے لگے اللہ کی قسم تم جس غرض سے یہاں آئے ہو یہ دعوت اس
سے بدرجہا بہتر ہے لیکن قائد وفد نے ان کی بات نہ مانی تاہم حضرت ایاس ا
بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیا۔
(البدايه ولنهايه)
بعض روایات کے مطابق
اول وفد نے عرض کی کہ ابھی ہماری آپس میں اوس اور خزرج کی خانہ جنگی ہو
رہی ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ا س وقت مدینہ تشریف لے آئیں تو
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت پر سب کا اجتماع نہ ہوسکے گا اگر آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سال تک اس ارادہ کو ملتوی فرمائیں اور اس
عرصہ میں خانہ جنگی صلح سے بدل جائے تو اوس و خزرج مل کر اسلام قبول
کرلیں گے۔ آئندہ سال ہم پھر حاضر ہونگے اس وقت اس کا فیصلہ ہوسکے گا۔
(طبقات ابن سعد)
جب اس وفد کے لوگوں نے
اسلام کا پیغام سنا تو وہ اس حقیقت کوجان گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ہی وہ پیغمبر آخر الزمان ہیں جن کا تذکرہ اکثر یہود کیا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے میں یہود سے سبقت لے جانے کے
جذبہ کے تحت یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہتے
ہوئے اسلام میں داخل ہوگئے اور یثرب کو مرکز اسلام بنانے کیلئے حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا وفد قرار پایا جس کی کوششوں سے انصار کے
گھروں میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا ذکر نہ ہوتا ہو۔
بیعت عقبہ اولی
سال گیارہ نبوی میں حسب
وعدہ بارہ اشخاص کا ایک وفد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے
مکہ مکرمہ میں آیا۔ اس وفد میں پانچ افراد تو وہی تھے جو پچھلے سال آئے
تھے اور سات ان کے علاو ہ تھے۔ ان لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کی اور یہ بیعت بیعت عقبہ اولیٰ کے نام
سے مشہور ہوئی۔ بیعت کرنے والے حضرات کے نام یہ تھے :
- حضرت ابو امامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ
- حضرت عوف بن الحارث رضی اللہ عنہ
- حضرت رافع بن مالک رضی اللہ عنہ
- حضرت ابو الہیثم مالک بن تیہان رضی اللہ عنہ
- حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ
- حضرت قطیہ بن عامر بن حدیدہ رضی اللہ عنہ
- حضرت معاذ بن حرث رضی اللہ عنہ
- حضرت عقبہ بن عامر
- حضرت زکوان بن قیس رضی اللہ عنہ
- حضرت خالد بن مخلد رضی اللہ عنہ
- حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ
- حضرت عباس بن عبادہ رضی اللہ عنہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے درج ذیل امور پر بیعت لی۔
- ہم اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے۔
- چوری سے باز رہیں گے۔
- زنا نہیں کریں۔
- اولاد (خصوصاً لڑکیوں) کو قتل نہیں کریں گے۔
- کسی پر جھوٹی تہمت نہیں لگائیں گے۔
- چغلی نہ کھائیں گے۔
- ہر اچھی بات (معروف) میں رسول اللہ کی اطاعت کریں گے۔
جن امور پر بیعت عقبہ
اولیٰ ہوئی ان کے تحت مدینہ میں ایک اسلامی معاشرے کی بنیادیں رکھ دی
گئیں جہاں ایک طرف یثرب میں موجود برائیوں کے قلع قمع کا عہد لیا گیا
وہاں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا
عہد بھی لیا گیا یعنی انفرادی اخلاقی اصلاح سے لے کر اجتماعی معاشرتی
انقلاب تک کے تمام امور کو اجمالاً اس بیعت میں شامل کردیا گیا۔
بیعت کے بعد مدینہ رخصت
ہونے سے قبل اہل وفد نے یہ درخواست کی کہ ہمارے ساتھ ایک معلم بھی بھیج
دیجئے جو ہمیں دین کی تعلیم دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی
درخواست کو منظور فرماتے ہوئے حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کو ان کے
ہمراہ روانہ فرمایا۔ یثرب میں حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ جو کہ
عمائدین یثرب میں سے تھے کو حضرت مصعب بن عمیر کی میزبانی کا شرف حاصل
ہوا۔
حضرت مصعب ابن عمیر رضی
اللہ عنہ کی کوششوں سے مدینہ سے قبا تک اسلام پھیل گیا۔ قبیلہ اوس کے
سردار حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرلینے سے پورا
قبیلہ مسلمان ہوگیا۔
بیعت عقبہ ثانیہ
حضرت مصعب ابن عمیر رضی
اللہ عنہ کی دعوتی اور تبلیغی مساعی کا ثمر یہ سامنے آیا کہ نبوت کے
بارہویں سال حج کے ایام میں حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کی قیادت
میں جو قافلہ مکہ پہنچا وہ 73 تہتر مردوں اور دو عورتوں پر مشتمل تھا۔
یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کے ارادے سے آئے تھے۔ ان
لوگوں نے رات کی تاریکی میں انتہائی رازداری کے ساتھ ملاقات کی۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قرآن حکیم پڑھ کر سنایا اور اسلام کی
تلقین کی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے اس وفد میں اوس و خزرج دونوں قبائل
کے لوگ موجود تھے جب وفد کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست
اقدس پر بیعت شروع کی حضرت عباس جو اس وقت تک اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے
تھے بنو خزرج سے جو تعداد میں زیادہ تھے ایسا خطاب فرمایا جو نہ صرف
اسلام کے انقلابی مزاج کا آئینہ دار ہے بلکہ وہ بیعت کے بعد آنے والے دور
کے حالات پر بھی محیط تھا۔ اگرچہ یہ بیعت کفار مکہ سے خفیہ طے پارہی
تھی مگر حضرت عباس کو اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود اس موقع پر اپنے ساتھ
لے جانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا مظہر ہے کیونکہ
اس بیعت کے مضمرات سے حضرت عباس ہی بیعت کرنے والو ں کو مطلع کرسکتے تھے
کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کے بعد
وہ اس حقیقت کو سمجھ سکیں کہ وہ اپنے آپ کو کن حالات کے سپرد کر رہے
ہیں۔ حضرت عباس نے اپنے خطاب میں کہا تمہیں معلوم ہے کہ قریش مکہ محمد
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانی دشمن ہیں اگر تم حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے کوئی عہد و پیمان کرنے لگے ہو تو یہ سمجھ کر کرنا کہ
یہ بڑا مشکل کام ہے۔ ان سے عہد و اقرار کرنا سرخ و سیاہ طبقات سے جنگ کو
دعوت دینا ہے۔ وہ تمہارے پاس جانا چاہتے ہیں ہم ان کے لئے ہمیشہ سینہ
سپر رہے اگر تم بھی مرتے دم تک ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ورنہ ابھی
جواب دے دو۔ جو اقدام بھی کرو سوچ سمجھ کر کرو ورنہ کچھ بھی نہ کرو۔ حضرت
عباس کے خطاب کے بعد ابو الہیثم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
مخاطب ہوکر عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !ہم یہود کے
حلیف ہیں اس بیعت کے بعد ان سے ہمارے تعلقات ختم ہوجائیں گے۔ کہیں ایسا
نہ ہو جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قوت و اقتدار حاصل ہوجائے تو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن واپس لوٹ جائیں۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں تمہارا خون میرا خون ہے۔ تم میرے
اور میں تمہارا ہوں۔
جن امور پر بیعت کے دوران آپ نے زور دیا وہ یہ تھے۔
- کہ تم دین حق کی اشاعت میں میرے ساتھ پورا پورا تعاون کروگے۔
- جب میں تمہارے شہر میں جا کر قیام پذیر ہو جاؤں تو تم میری اور میرے ساتھیوں کی حمایت اپنے اہل و عیال کی طرح کرو گے۔
یہ سن کر خزرج کے سردار
براء ابن معرور نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست اقدس تھام لیا
اور عرض کیا ’’خدا کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی بنا
کر بھیجا ہے ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی طرح حفاظت کریں گے جس
طرح اپنی عورتوں کی کرتے ہیں۔ ہم خدا کی قسم جنگ جو اور سامان حرب والے
ہیں۔،،
جب بیعت ہوچکی اور اس
امر کا فیصلہ ہوگیا کہ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فروغ دعوت
حق کے لئے مدینہ منتقل ہونگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام
continue next time insha allah